افغانستان کے اندر سے یکے بعد دیگرے دہشت گردی کی گھنائونی وارداتیں 

Jul 19, 2024

اداریہ

یوم عاشور سے ایک روز قبل افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کی آشیرباد کے تحت دہشت گردوں نے خیبر پی کے کی بنّوں چھائونی اور ڈیرہ اسماعیل خاں بلوچستان کے ہیلتھ مرکز پر حملے کر کے پندرہ بے گناہوں کو شہید کر دیا۔ ان میں دس سیکورٹی اہلکار اور پانچ شہری شامل ہیں۔ بنوں چھائونی میں دہشت گردی کی واردات میں آٹھ جوان شہید ہوئے جبکہ سیکورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں دس دہشت گرد مارے گئے۔ ڈی آئی خاں ہیلتھ مرکز پر دہشت گردوں کے حملے میں دو جوان اور پانچ شہری شہید ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ 
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 15 جولائی کی صبح دس دہشت گردوں کے گروپ نے بنّوں چھائونی پر حملہ کیا۔ اس دوران سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی چھائونی میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنا دی جس پر دہشت گردوں نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی چھائونی کی دیوار سے ٹکرا دی۔ اس خودکش دھماکے میں آٹھ بہادر جوان شہید ہو گئے جبکہ کلیئرنس اپریشن میں سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور تمام دس دہشت گرد سکیورٹی فورسز کی اس کارروائی کے نتیجہ میں جہنم واصل ہو گئے۔ خودکش دھماکے کے نتیجہ میں چھائونی کی دیوار کا کچھ حصہ گر گیا اور اس سے ملحقہ انفراسٹکچر کو بھی نقصان پہنچا۔ شہداء کا تعلق ضلع پونچھ آزاد کشمیر، خوشاب، ضلع نیلم آزاد کشمیر، ضلع مظفر آباد آزاد کشمیر، ضلع کرک، ضلع بہاولپور اور لکی مروت سے تھا۔ شہداء کی میتیں ان کے آبائی علاقوں میں روانہ کر دی گئیں جہاں فوجی اعزاز کے ساتھ انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔ 
آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردی کی یہ گھنائونی واردات طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ نے کی ہے جس کا نیٹ ورک افغانستان میں موجود ہے۔ یہ گروپ ماضی میں بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے۔ ترجمان پاک فوج کی جانب سے کابل کی عبوری طالبان حکومت سے تقاضہ کیا گیا کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف موثر کارروائی کرے، پاکستان کی جانب سے افغانستان سے آنے والے ان خطرات کے خلاف ضروری سمجھے جانے والے اقدامات اٹھائے جائیں گے اور مسلح افواج دہشت گردی کی اس لعنت کے خلاف مادرِ وطن اور اس کے عوام کا بھرپور دفاع کرتی رہیں گی اور آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ جاری رہے گی۔ 
دہشت گردی کی دوسری واردات 15 ، اور 16 جولائی کی درمیانی شب ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں میں دیہی صحت مرکز کڑی شموزئی میں ہوئی جہاں دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو لیڈی ہیلتھ ورکرز، دو بچوں اور ایک چوکیدار سمیت پانچ افراد شہید ہوئے جبکہ سیکورٹی فورسز نے فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ کر کلیئرنس اپریشن کیا جس کے دوران تین دہشت گرد جہنم واصل ہوئے، جبکہ شدید فائرنگ کے تبادلے میں ایک نائب صوبیدار محمد فاروق اور سپاہی محمد جاوید نے جام شہادت نوش کیا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف، چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی ، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ، وزیر داخلہ محسن نقوی ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، خیبر پی کے اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر سیاسی و حکومتی شخصیات نے دہشت گردی کی ان گھنائونی وارداتوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعا کی۔ انہوں نے اپنے الگ الگ بیانات کے ذریعے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم ملک میں دہشت گردی کا عفریت ختم کر کے ہی دم لیں گے جس کے لئے پاکستانی قوم اور افواج پاکستان شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ انہوں نے افغانستان کی عبوری حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لئے کسی صورت استعمال نہ ہونے دے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز افغان ناظم الامور کو بھی دفتر خارجہ طلب کر کے انہیں وارننگ دی گئی۔ 
یہ حقیقت ہے کہ 2021ء میں پاکستان کی امن عمل کی کوششوں کے نتیجہ میں امریکہ کے فوجیوں اور عام شہریوں کے پاکستان سے محفوظ انخلاء کے بعد دہشت گردی کا رخ پاکستان کی جانب ہوا اور انہی طالبان قیادتوں کی سرپرستی میں،جن کی پاکستان کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی کابل کے اقتدار میں واپسی ممکن ہوئی تھی، طالبان انتہاء پسندوں نے افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہو کر یہاں ازسرنو د ہشت گردی کا آغاز کر دیا۔ طالبان کی یہ پالیسی پاکستان کے ساتھ بغضِ معاویہ کی ہی عکاسی کرتی ہے، جس کے تحت کابل انتظامیہ کی آشیرباد سے طالبان دہشت گردوں نے گزشتہ سال بھی یوم عاشور کے اگلے روز باجوڑ میں دہشت گردی کی گھنائونی واردات کی جس میں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ متعدد شہری بھی شہید ہوئے۔ دہشت گردی کی اس واردات کو پاکستان میں جاری انتخابات کے عمل کو سبوتاڑ کرنے سے تعبیر کیا گیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان کی عبوری حکومت کو بار بار متنبہ بھی کیا جاتا رہا مگر قابل انتظامیہ کی جانب سے دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کے بجائے پاکستان کو ہی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا چنانچہ پاکستان نے خفیہ اداروں کی فراہم کردہ اطلاعات کی روشنی میں افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کئے مگر افغان سرحد سے دہشت گردوں کی بلاروک ٹوک پاکستان آمد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس کا المناک نتیجہ گزشتہ دو دنوں میں خیبر پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کی گھنائونی وارداتوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ 
اگرچہ امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی اس دہشت گردی پر تشویش کا اظہار اور اور پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا گیا ہے تاہم یہ امریکہ کی محض ملمع کاری ہے اور حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کی بڑی وجہ امریکہ خود ہے جس نے افغانستان سے اپنے انخلا کے وقت امریکی نیٹو فورسز کے زیر استعمال اربوں ڈالر کا جدید اسلحہ گولہ بارود اور جنگی ہتھیار افغانستان میں ہی چھوڑ دئیے جو ایک طرح سے امریکہ کی جانب سے طالبان کے لئے گرین سگنل تھا کہ وہ اس اسلحہ کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے آزادانہ طور پر استعمال کریں۔ 
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ تمام وارداتوں میں یہی امریکی اسلحہ استعمال ہو رہا ہے جس کے باعث ہمارے مکار دشمن بھارت کو بھی پاکستان کی سلامتی کے خلاف دہشت گردوں کی سرپرستی کر کے اپنی سازشیں پھیلانے کا موقع ملا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا بادی النظر میں امریکہ ، بھارت اور افغانستان کا مشترکہ ایجنڈہ ہے جسے طالبان دہشت گردوں کے ذریعے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ اس میں بالخصوص بلوچستان اور خیبر پی کے دہشت گردوں کے ہدف پر ہیں اور سی پیک کو سبوتاڑ کرنے کی سازش بھی اسی مشترکہ ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے لئے بدقسمتی سے پاکستان کے اندر سے بھی پاکستان کے دشمنوں کو پاکستان کے بدخواہ بعض سیاسی عناصر کی سپورٹ حاصل ہے۔ پاکستان کی سلامتی کو درپیش ان سنگین خطرات کی بنیاد پر ہی ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف اپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا ہے جسے بروئے کار لانا اب وقت کا تقاضہ ہے۔ اس کے بغیر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

مزیدخبریں