سانحہ کربلا حق اور فرعونیت کے درمیان ااس کشمکش کا نام ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بالآخر فتح حق کی ہوتی ہے امام حسین کا نام تاریخ کے صفحوں پر ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا یزید کا کئی نام لیوا نہیں ہے فرعونیت اپنے ساتھ سنگ دلی سفاکیت اور طاقت کے بل پر میدان میں اترتی ھے کہ منٹوں سیکنڈوں میں زمین اور آسمان کو زیر کرلے گی جب کہ حق کے ساتھ جرات بہادری اور حو صلہ اسے میدان عمل میں مضبوط رکھتا ہے اور یہ ساری صلاحیتیں خدا کی طرف سے ودیعت ہوتی ہیں لہٰذا یہ خاصیتیں اسے تازہ دم رکھتی ہیں یہ حق ہی تھا کہ غزوہ بدر میں تین سو تیرہ کی جماعت ایک ہزار کے لشکر سے ٹکرا گئی محمد بن قاسم اپنے سے دس گنا بڑی طاقت سے جا ٹکرایا طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا دیں امام حسین کا حق کے لئے آواز بلند کرنا اس لئے عظیم تھا کہ انہوں نے ایک فاسق اور فاجر حکمران کی اطاعت سے انکار کردیا تھا
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حق کے کئی انداز ہیں حق کے علمبرداروں کو ہمیشہ کی ذندگی مل گئی جبکہ ظالم یہ سمجھتا ہے کہ یہ چارروزہ زندگی ہی اس کا کل اثا ثہ ہے اسکا کبر نخوت اور غرور اسے اسی سوچ کے دائرے تک محدود رکھتا ھے یہی سوچ ذہنوں کو زنگ آلود کرتی ہے یزید ایسی ریاست کا خواہاں تھا جو اسکی مرضی کے تابع ہو اس لئے وہ مخالفین کے وجود سے بھی گریزاں تھا۔ ایسی ریاستیں صفحہ ہستی سے بہت جلدی ناپید ہو جاتی ہیں بنو امیہ کی حکومت صرف نوے سال قائم رہی ایک مورخ اسپینسر لکھتا ہے کہ قوموں کی زندگی صدیوں پر محیط ھوتی ہے گویا کہ بنو امیہ اپنی حکومت کے صرف نوے سال کے اندر ختم ہو گئی مورخین اسکی سب سے بڑی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ امام حسین کے ناحق خون نے حکومت کی بنیادیں ھلا کر رکھ دیں سوائے عمر بن عبدالعزیز کے بنو امیہ کو بہتر حکمران نہ مل سکا بنو عباس برسراقتدار آیا تو اس نے بنو امیہ کو چن چن کر قتل کیا کہا جاتا ہے کہ بنو عباس کے فرمانروا ابوالعباس نے امویوں کے قتل عام کے بعد انہیں معاف کردیا۔تو ایک روز اس نے بچے کھچے نوے امویوں کو کھانے پر دعوت دی ایک شاعر شیل بن عبداللہ نے خلیفہ کے سامنے کچھ اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ تھا کہ ان لوگوں کے دلوں میں بیماریاں ہیں انہوں نے امام حسین کو شہید کیا تو کوڑا اٹھا اور روئے زمین پر ایک بھی اموی ذندہ نہ چھوڑ یہ سنتے ہی خلیفہ کی رگ انتقام بھڑکی اور اس نے تمام امویوں کو کوڑے سے۔ پٹوایا اور انکی نیم مردہ لاشوں پر دستر خوان بچھا کر کھانا کھایا تاریخ سفاکیت سے بھری پڑی ہے آج ان حکمرانوں کا کوئی نام و نشاں نہیں عبرت کی علامت بنے منوں مٹی تلے جا سوئے صرف تاریخ نے ان کے مظالم کو زندہ رکھا کہ آنے والے حکمران اس حقیقت کو سمجھیں کہ ظلم کو نھیں سچائی اور حق کو ابدیت حاصل ہے جب افلاطون نے فلاحی ریاست کا نظریہ پیش کیا تو اس دور کے بادشاہ کو کسی شق پر اعتراض نہیں تھا اعتراض اس بات پر تھا کہ کہ فلاحی ریاست کا دائرہ کار عوام کے گرد گھومتا تھا اس نے اکلے دن افلا طون کو بلایا اور کہا کہ سچائی یہ ہے کہ صرف ایک نقطے نے فلاحی ریاست کے تصور کو دھندلا دیا ہے اور وہ پرولتاری ریاست ہے اس پر افلاطون نے کہا کہ ایک پرولتاری ریاست میں غریب ہی غریب کے دکھ کو سمجھ سکتا ہے واقعہ کربلا اس بات کا اعادہ کرتاہے کہ حق کی خاطر جان کا نذرانہ بھی ناگزیر ہے اس سے قوموں کے مقصد اور احیا کو بقا ملتی ہے اور اس سے لاالہ االااللہ کی بنیاد پڑتی ہے
اقبال کا شعر ہے
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسین