سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تقرری کے معاملے پرپی ٹی آئی رہنماءشبلی فراز نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط لکھ دیا،قاضی فائز عیسیٰ کے نام خط میں جوڈیشل کونسل سے ایڈہاک ججز کی تجویز مسترد کرنے کا مطالبہ۔پی ٹی آئی رہنماءنے اپنے خط میں چیف جسٹس سے کہا ہے کہ مستقل ججز کی تقرری کے بعد زیر التوا مقدمات کو وجوہ بناکر ایڈہاک ججز کی تقرری نہیں ہوسکتی۔ ایڈ ہاک ججز تقرری سے یہی تاثر جاتا ہے کہ یہ سب ایک جماعت کیلئے کیاجارہا ہے۔ ایڈ ہاک ججز کی تقرری سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ عدلیہ میں ایک جماعت کے خلاف آرا کو بیلنس کرنے کی کوشش ہے۔ ایڈہاک ججز کی تقرری میں کوئی شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہییں۔ پاکستانی عوام آزاد اور بغیر مداخلت کے عدلیہ کے اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ میں عوام،پاکستان بار کونسل اور متعدد بار کونسلز کی ترجمانی کررہا ہوں۔ایڈہاک ججز کی تقرری عوام میں عدلیہ میں مداخلت کا تاثر دے رہی ہے۔ جب قاضی فائز عیسیٰ جوڈیشل کونسل کے ممبر تھے تو ججز تقرری میں شفافیت پر زور دیتے تھے۔جوڈیشل کمیشن کی مشاورت کے بغیر ہی ججز کی سلیکشن کی گئی۔ شفاف طریقہ کار کے بغیر ججز کی تقرری مزید پریشان کن ہے۔ زیر تجویز جج (ر) مقبول باقر نگراں حکومت میں اہم آفس ہولڈر رہے۔ اسی طرح زیر تجویز جج (ر)طارق مسعود نے سو پی ٹی آئی سپورٹرز کی ملٹری کسٹدی کیس کو طول دیا اور زیر تجویز جج (ر) مظہر میاں خیل نے پی ٹی آئی اور رہنماوں پر آرٹیکل 6 لگانے کے ریمارکس دئیے۔ رہنماءپی ٹی آئی شبلی فراز نے چیف جسٹس کے نام لکھے گئے خط میں مزید کہا کہ ایڈہاک ججز تقرری کی تجویز اسی دن آئی جب سپریم کورٹ نے5-8سے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا۔ ایڈہاک ججز کی سلیکشن کے لیے کوئی شفاف طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔ الجہاد ٹرسٹ کیس کے بعد کسی ایڈ ہاک جج کی 3 سال کیلئے تقرری نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ میں مستقل ججز کی تقرری حال ہی میں کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں سویلین کا ملٹری ٹرائل، 8 فروری الیکشن کیس اور حال ہی میں پی ٹی آئی پر پابندی کے معاملات زیر التوا ہیں۔ ایسی صورت حال ہی میں ریٹائرڈ ججز کی تقرری سے سنجیدہ اور جائز خدشات جنم لینے لگے ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس کی قلیل مدت ملازمت میں زیر التوا کیسز میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آ سکے گی۔ زیر التوا کیسز کا معاملہ آنے والے چیف جسٹس پر چھوڑ دیا جائے۔