صوبوں میں مقابلہ اور بجٹ مقابلہ

پنجاب خیبر پختونخوا اور سندھ کے بجٹ کا موازنہ بلکہ مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ یہ تینوں بجٹ تقریباً ایک جیسے ہیں۔ ایک ہی دن پیش کئے گئے ہیں مگر وفاقی بجٹ سے تینوں بہتر ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور وزیراعظم کے بھائی وزیر اعلیٰ ہیں۔ پنجاب کا بجٹ بھی پاکستان کے بجٹ سے اچھا ہے اور یہ بڑے دکھ کی بات ہے اور خوشی کی بات بھی ہے۔ چاروں صوبے پاکستان ہیں۔ بلوچستان کا بجٹ بھی کل پیش کیا جاتا تو اچھا ہوتا۔ یہ بھی یکجہتی کا مظاہرہ ہے۔
کہتے تھے کہ خیبر پختونخوا کا بجٹ تہلکہ مچا دے گا۔ عمران خان نیا پاکستان نہ بنا سکا مگر نیا خیبر پختونخوا بھی نہیں بن سکتا۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق نے بجٹ پیش کیا۔ وہ پہلے ایم ایم اے کی سرحد حکومت میں بھی سینئر وزیر تھے۔ آفتاب شیر پاﺅ جنرل مشرف کے وزیر داخلہ تھے۔ پرویز خٹک بھی دو دفعہ وزیر شذیر رہے ہیں تب اس صوبے میں کون سے عوامی فلاحی منصوبے آغاز ہوئے کہ اب مکمل ہو جائیں گے۔
پنجاب کا بجٹ بھی مختلف نہیں ہے مگر اس بار تعلیم اور صحت کے لئے زیادہ رقم رکھی گئی ہے حتیٰ کہ سندھ میں بھی ان اہم ترین شعبوں کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔ پنجاب میں کل بجٹ کا ایک چوتھائی تعلیم کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ تینوں صوبوں نے یہ اچھا کیا ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اخراجات بھی بجٹ کے مطابق ہونا چاہئیں۔ اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ حکمران اور افسران اپنی مرضی سے یہ بجٹ استعمال کرتے ہیں۔ کبھی کوئی نیا منصوبہ نظر نہیں آیا۔ ہر دور حکومت میں ایک نیا ہسپتال تو ہر صوبے میں بننا چاہئے۔ دوائیں بھی نہیں ملتیں۔ اب تو دعائیں بھی نہیں ملتیں۔ نادار اور بیمار لوگوں کی بددعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ سب جانتے ہیں کہ بددعائیں کس کو دی جاتی ہیں۔ ثقافت اور سیاحت میں خیبر پختونخوا کے بجٹ میں صرف 87 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ اس شعبے میں اربوں کمائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے یہ حصے خوبصورت ترین ہیں اور ایسی ایسی جگہیں ہیں کہ جنہیں بار بار دیکھنے کو جی کرتا ہے۔ میں نے آدھی دنیا دیکھی ہے۔ یورپ کے شمالی علاقے قابل دید ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقے زیادہ دیدہ زیب ہیں مگر توجہ نہیں دی جاتی۔ سارا پیسہ حکمرانوں اور افسروں کی رہائشوں وغیرہ کی تزئین و آرائش پر خرچ ہو جاتا ہے۔ جھیل سیف الملوک سے زیادہ خوبصورت جھیل کہاں ہے مگر وہاں پہنچنا دشوار ہے۔ وہاں جانے والے راستوں پر مخصوص گاڑیاں جا سکتی ہیں اور انہیں صرف خاص ڈرائیور چلا سکتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ سیاحت کے شعبے میں سوہنے مگر مشکل مقامات پر کرکٹ گراﺅنڈ بنیں گے اور نوجوان بلا ہاتھ میں لئے ہوئے وہاں جائیں گے۔
پنجاب بجٹ میں دو کنال سے آٹھ کنال کے بنگلوں تک ٹیکس لگایا گیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ان جگہوں میں امیر کبیر رہتے ہیں اور جو محل اس سے بڑے علاقے پر ہیں ان کا کیا بنے گا۔ یہ بات کئی بار لکھ چکا ہوں شاید کبھی اس پر عمل ہو جائے تو واقعی معاشی دھماکہ ہو جائے گا۔ جس کا وعدہ ایٹمی دھماکوں کے بعد نوا زشریف نے کیا تھا۔ اس پر عمل شہباز شریف کریں گے جامعہ نعیمیہ کی ایک تقریب میں شہباز شریف صدارت کر رہے تھے میں نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ سیاستدان غریبی ختم کرنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ غریبی ختم ہوئی نہ غریب ختم ہوئے۔ آپ غریبی کو ختم نہ کریں کہ یہ صرف نعرہ ہے۔ آپ تھوڑی سی امیری ختم کر دیں غریبی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ سندھ بجٹ میں تنخواہیں صرف ایک سے 15 گریڈ تک بڑھائی گئی ہیں۔ اس کے آگے افسری شروع ہوتی ہے۔ پنجاب سندھ میں پولیس کے لئے اربوں روپے خرچ کئے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پہلے بھی بہت خرچ کیا گیا تو کیا ہوا۔ اب کیا ہو گا؟ امن اس طرح نہ ہو گا حالات بدلنے کے لئے خیالات بدلنا ہوں گے۔ جرم کے پیچھے ظلم کے خلاف ردعمل ہوتا ہے اور غریبی ہوتی ہے۔ انصاف کے لئے معاشی اور سیاسی انصاف بڑا ضروری ہے۔
میں بہت دکھی ہوا جب انجمن تاجران لنڈا بازار کے جنرل سیکرٹری شیخ محمد نعیم بادشاہ نے فون کیا وہ فقیر آدمی ہیں اور بادشاہ ان کا نام ہے۔ لنڈا بازار سے پرانے سستے کپڑے غریب لے جاتے ہیں اور سردیاں گزارتے ہیں۔ یہ کپڑے امیر لوگ نہیں خریدتے۔ وہ باہر کے کپڑے پہنتے ہیں اور لنڈا بازار میں بھی باہر کے کپڑے ہوتے ہیں۔ میں بھی لنڈے کے کپڑے پہنتا ہوں۔ کئی آدمی لنڈے بازار کے کپڑوں کو یورپ سے منگوائے ہوئے کپڑے کہتے ہیں۔ اس میں غلط بات بھی نہیں ہے یہ بیش قیمت کپڑے یورپ کینیڈا جاپان کوریا سے مفت آتے ہیں یا بہت معمولی قیمت لی جاتی ہے۔ پچھلی حکومت نے ان سستے کپڑوں پر 3 فیصد ٹیکس 4 فیصد سیلز ٹیکس اور پانچ فیصد درآمدی ڈیوٹی لگا دی۔ اس غریب دشمن حکومت سے یہی امید تھی مگر بدلتے ہوئے پاکستان کی خوشخبری سنانے والے نواز شریف کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چھ فیصد ٹیکس 17فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا۔ عام چیزوں پر یہ ٹیکس ایک فیصد بڑھا ہے مگر یہاں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے یہ ظلم ہے میں اس حوالے سے بھی شہباز شریف سے اپیل کرتا ہوں۔ ڈار صاحب نے کبھی لنڈا بازار کے کپڑے پہنے نہ ہوں گے۔ یہ صرف غریبوں سے زیادتی ہے۔ اس ٹیکس سے حکومت کتنی امیر ہو جائے گی۔ مگر غریب سردی میں ٹھٹھر جائیں گے۔ 50 روپے کا کپڑا پانچ سو کا ہو جائے گا۔
میرا خیال تھا کہ خیبر پختونخوا کا مقابلہ ہو گا مگر سندھ بھی میدان میں آ گیا ہے۔ بلوچستان کا انتظار ہے۔ یہ مقابلہ ٹھیک ہے۔ مقابلہ دوسرے کو ہرانے کے لئے نہیں ہوتا۔ خود جیت جانے کے لئے ہوتا ہے۔ صوبے کی بہتری پاکستان کی بہتری ہے۔ میری ہر صوبائی وزیر خزانہ سے درخواست ہے کہ وہ اسحاق ڈار سے کوئی مشورہ نہ کریں ورنہ خزانہ بھر گیا تو بھی خالی رہے گا۔ آخر میں سب حکمرانوں سے ایک گزارش ہے صرف تحریک انصاف والوں سے نہیں ہے۔ معاشرے میں ماں کا انصاف نافذ کرنا چاہئے۔ ماں کی مامتا اور قربانی مشہور ہے۔ یہ انصاف کیسا ہے۔ ماں کا انصاف یہ ہے کہ وہ اپنے غریب اور کمزور بچے کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے۔ وہ بچوں میں تفریق نہیں کرتی۔ جس بچے کے پاس زیادہ ہو۔ اس سے لے لیتی ہے اور اس بچے کو دے دیتی ہے جس کے پاس نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہمیشہ سے یہ ہو رہا ہے کہ جن کے پاس زیادہ ہے اسے اور زیادہ دیا جا رہا ہے اور جس کے پاس نہیں ہے یا کم ہے اس سے لیا جاتا ہے بلکہ چھین لیا جاتا ہے۔ یہ بے انصافی سے کچھ زیادہ بے انصافی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...