یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں 6 جون 2013ءکی ایک خبر ہے جو مختلف اخبارات میں شائع ہوئی ہے جس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر انتخاب عالم یہ کہتے ہیں کہ کرکٹ کو سیاست سے پاک رکھنا چاہئے۔ ”انتی“ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کرکٹ کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے اس سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ خراب ہونے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا۔ انتخاب عالم کی میڈیا سے گفتگو اس وقت کی ہے۔ جب پاکستان کرکٹ بورڈ چیئرمین کے بغیر کام کر رہا تھا۔ معزز عدالت ذکاءاشرف کو کام کرنے سے روک چکی تھی اور پی سی بی کے چیئرمین کے خلاف ملک کے بڑے ریجنز کے سربراہان میدان عمل میں تھے اور نئی حکومت کے قیام کے بعد کرکٹ بورڈ میں تبدیلیوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں یقیناً یہ حالات ذکاءاشرف کے لئے اچھے نہ تھے۔ ایسی خبروں کو اس وقت بھی پسند نہیں فرماتے تھے جب وزیراعظم ان کا اپنا تھا۔ وفاق میں ان کی اپنی حکومت تھی۔ تو اب وہ ان خبروں کو کیسے سنتے‘ برداشت کرتے۔ ان حالات میں ان کے حق میں بولنے والے اور بھی بہت تھے جنہیں مختلف طریقوں سے نوازا گیا لیکن شاید ان تمام افراد کی بات کو اتنی اہمیت نہ دی گئی ہو جو انتخاب عالم کو میدان میں اترنا پڑا اور یاددہانی کروانا پڑی‘ نصیحت کی ضرورت پیش آئی کہ کرکٹ کو سیاست سے پاک رکھنا چاہئے۔ اس سے ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
واقفان حال کہتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ میں موجود بڑے ناموں کو ایسے مشکل وقت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی اپنے حق میں بیان دلوا کر تو کبھی اپنے مخالفین پر زبانی حملوں کے ذریعے ”مقاصد“ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کرکٹ بورڈ کی بیرونی دیوارہلتی ہے تو زلزلہ عہدیداروں کے گھر میں آجاتا ہے۔ پھر وہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بیانات کی بارش شروع کر دیتے ہیں۔ ہر روز بورڈ کے ملازمین سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی میڈیا سے بات کروائی جاتی ہے۔ کبھی ٹی وی پروگراموں میں اپنے تنخواہ دار ملازمین کو بھیج کر ناقدین کو جواب دیا جاتا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انتخاب عالم پاکستان کی کرکٹ کا ایک بڑا نام ہیں۔ انہیں کرکٹ میں سیاست تو نظر آگئی اور انہوں نے اپنے خدشات کا برملا اظہار بھی کر دیا لیکن آج جب قومی ٹیم بدترین کارکردگی کے بعد وطن واپس آئی ہے۔ چیمپئنز ٹرافی کے تینوں میچ ہارنے کے باوجود انتخاب کی زبان سے ایک لفظ ادا نہیں ہوا۔ کرکٹ میں سیاست کے نام پر وہ فرد واحد کو بچانے کے لئے تو بول پڑے ہیں اور ملکی ساکھ کی فکر بھی انہیں لاحق ہو گئی لیکن وہ کھیل جس نے انتخاب سمیت بہت سے لوگوں کو عزت‘ دولت اور شہرت دی ہے ان کی اکثریت ٹیم کی بدترین کارکردگی پر خاموش ہے۔ جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
کرکٹ میں سیاست کی سب کو فکر ہے لیکن ملک کے مقبول ترین کھیل کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ ٹھیک ہے۔ جس پر مصلحتاً انتخاب عالم سمیت تمام تنخواہ دار ملازمین نے زبان بندی اختیار کر رکھی ہے۔ ایک عرصے سے بورڈ میں بیٹھے افراد نے شاید ہی کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہو جس سے ملکی کرکٹ کو کوئی فائدہ پہنچا ہوا لیکن پھر بھی اپنے عہدوں پر براجمان ہیں۔ جس کھیل کی بدولت وہ تمام سہولتیں حاصل کر رہے ہیں اس کے فروغ اور معیار کو برقرار رکھنے کے لئے کبھی عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔ جو بڑا آتا ہے اسکی خوشنودی میں زمین آسمان ایک کرکے اپنی سیٹ پکی کرتے ہیں اور پھر موج کرتے ہیں۔
سابق کرکٹرز ہر دور میں بورڈ کا حصہ رہے ہیں۔ یہ کرکٹ کی بڑی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں‘ بورڈ کی منصوبہ بندی میں شریک ہوتے ہیں۔ مستقبل کی تیاریوں میں ان کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ ٹیلنٹ کو ناصرف تلاش کرنے کا جامع پلان بناتے ہیں بلکہ اس کی تراش خراش کا کام بھی کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ آج باصلاحیت کھلاڑی سامنے نہیں آرہے۔ ہمارے پاس ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں لینے والے با¶لر کی کمی ہے۔ انضمام اور یوسف کے بعد کوئی ورلڈ کلاس بلے باز سامنے نہیں آیا۔ سعید اور عامر کے بعد کوئی افتتاحی جوڑی بھی نہیں بنا سکے۔ نیا گیند کرنے والے تیز گیند باز کے لئے شاید اخبارات میں اشتہار دینا پڑیں۔ کوئی لیگ سپنر ہماری ٹیم کا حصہ نہیں ہے۔ ہمارے بلے باز‘ بلے باز کم اور جلد باز زیادہ لگتے ہیں اگر یہ چند مسائل کرکٹ بورڈ میں کھیل کی سمجھ رکھنے میں عالمی شہرت کے حامل سابق کرکٹرز کی موجودگی میں بھی عرصے سے حل طلب ہیں تو پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ تمام افراد وہاں کیا کر رہے ہیں یہ کھیل کو تو کچھ نہیں دے پا رہے۔ ہمارے اس ورثے کی حفاظت کرنے میں تو ناکام نظر آتے ہیں پھر یہ کس کے محافظ ہیں؟