لاہور (خصوصی رپورٹر + خبرنگار+ سپیشل رپورٹر+ کامرس رپورٹر+ سٹی رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے ماڈل ٹائون واقعہ کے خلاف واک آئوٹ کیا اور سارا دن اجلاس میں نہیں آئے تاہم قائد حزب اختلاف نے تصدیق کی ہے کہ بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کیا جبکہ شمالی وزیرستان آپریشن کے حق میں حکومتی قرارداد منظور کرلی گئی۔ اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن لیڈر نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ 9 افراد سانحہ ماڈل ٹائون میں جاںبحق ہو چکے ہیں، ان کی مغفرت کے لئے دعا کرائی جائے۔ سپیکر نے کہا کہ مجھے پنجاب حکومت اور وزیر قانون نے بھی درخواست کی ہے کہ شہداء کے لئے دعائے مغفرت کرائی جائے جس کے بعد دعائے مغفرت کرائی گئی۔ میاں محمودالرشید نے کہاکہ جمہوری دور میں ایسی پولیس گردی کے واقعہ کی 67 سالہ ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسا تو جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیںہوا کہ نہتی خواتین کو منہ اور گردن پر گولیاں ماری گئیں اور 18 گھنٹے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ میڈیا نے جو سفید ریش لوگوں اور خواتین کو مارتے ہوئے دکھایا ہے اس سے روح لرز گئی۔ ہم کل منہاج القرآن سیکرٹریٹ گئے جہاں ایس ایس پی اور ڈی سی او کی جانب سے بیریئر لگانے کے اجازت نامے دکھائے گئے۔ میں سمجھتا ہوں یہ سوچے سمجھے پلان کے تحت ہوا ہے پولیس خود ایسا نہیں کر سکتی۔ ہماری اطلاع کے مطابق ایک اجلاس میں ایک افسر نے اس آپریشن کی مخالفت کی تھی لیکن اُسے چپ کرا دیا گیا اور کہا گیا کہ ہر صورت میں بیریئر ہٹائے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کہتے ہیں مجھے تو علم نہیں تو پھر انہیں وزیراعلیٰ رہنے کا حق نہیں ہے ان کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ اس دوران حکومتی ارکان مسلسل شیم شیم کی آوازیں بلند کرتے رہے۔ میاں محمودالرشید نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ نوگو ایریا نہیں بننے دیں گے تو کیا جاتی عمرہ، ماڈل ٹائون ایچ بلاک نو گو ایریا نہیں ہیں؟ حکمران خود جمہوریت کا بستر گول کر رہے ہیں۔ ہم اسمبلی میں سانحہ ماڈل ٹائون پر قرارداد لائیں گے۔ بعدازاں وزیر قانون کے جواب پر اپوزیشن ارکان نشستوں پر سے کھڑے ہو گئے اور اونچی آواز میں بولنا شروع کردیا اور نعرے بازی کی کہ ’’غنڈہ گردی نہیں چلے گی‘‘ جبکہ حکومتی بنچوں سے رانا محمد ارشد، اصغر علی منڈا اور میاں عبدالوحید نے کھڑے ہو کر اونچی آواز میں بولنا شروع کیا کہ یہ مشرف کے پیروکار ہیں سازش کر رہے ہیں، ان کا ماضی داغ دار ہے۔ ہمیں اس واقعہ پر افسوس ہے لیکن یہ لوگ اس واقعہ پر سیاست کر رہے ہیں۔ سپیکر ارکان کو چپ کراتے رہے لیکن ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ جس پر سپیکر نے ارکان کو حکم دیا کہ سب خاموش ہو جائیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن سردار شہاب الدین نے کہا کہ خدارا کل جو سانحہ ہوا ہم سب کو چاہئے کہ اس پر گفتگو کریں اور اُسے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پیپلز پارٹی نے سپورٹ کیا ہے ہم اب بھی ان کے ساتھ ہیں لیکن ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی اس واقعہ کی مذمت کرتی ہے۔ اپوزیشن رکن میاں اسلم اقبال سے سپیکر پنجاب اسمبلی نے پوچھا کیا آپ پارلیمانی لیڈر ہیں انہوں نے جواب میں کہا کہ میرا استحقاق ہے۔ ماڈل ٹائون واقعہ بہت افسوسناک ہے پورا لاہور اس پر افسردہ ہے جس طرح پولیس گردی کی گئی، بے گناہ افراد کا قتل عام کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ اس دوران حکومتی خواتین ارکان اسمبلی میاں اسلم اقبال کو اونچی آواز میں ’’لوٹا ٹھاہ‘‘ کہتی رہیں جبکہ حکومتی بنچوں سے کئی ارکان کھڑے ہو کر سپیکرپنجاب اسمبلی سے کہتے رہے کہ ہمیں بھی بولنے دیا جائے۔ جس کے بعد اپوزیشن ارکان میں اسمبلی کے اجلاس سے واک آئوٹ کر گئے۔ سپیکر نے چودھری شفیق، طاہر خلیل سندھو، میاں محمد رفیق سمیت ایک اور رکن اسمبلی کو اپوزیشن کو منانے کے لئے بھیجا اس دوران احمد خان بلوچ بجٹ پر کچھ دیر ہی بولے تھے کہ صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے سپیکر کو کہا کہ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید ایوان میں آئے ہیں ان کی بات سن لیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید نے کہا کہ اس قدر افسوس ناک واقعہ پر ہم نے اظہار خیال کیا ہم چاہتے ہیں کہ واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن یہاں نواز شریف زندہ باد شہباز شریف زندہ باد کے نعرے لگائے گئے اس واقعہ پر وزیراعلی پنجاب کو ایوان میں آنا چاہئے تھا لیکن وہ نہیں آئے۔ ہم حکومت کی جانب سے غیر سنجیدہ روئیے کے خلاف اجلاس سے واک آئوٹ کرتے ہیں اور اس واقعہ کا سوگ منانے کا اعلان کرتے ہیں۔ اس موقع پر صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر صرف اس لئے دوبارہ اسمبلی میں آئے کیونکہ انہوں نے پہلے واک آئوٹ کے دوران لفظ سوگ نہیں کہا تھا۔ اپوزیشن کے واک آئوٹ کے دوران وزیر قانون پنجاب نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اسمبلی کا یہ ایوان شمالی وزیرستان میں حکومت پاکستان کی ہدایت پر پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کی بھرپور حمایت اور تائید کرتا ہے۔ یہ ایوان ملک و قوم کی سلامتی اور بقاء کے اس دلیرانہ فیصلے پر وزیراعظم نوازشریف کو زبردست خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ بجٹ پر بحث کے دوران سرکاری ارکان بجٹ کو دل کھول کر سراہتے اور اپنے علاقے میں مزید ترقیاتی کاموں کا مطالبہ کرتے رہے۔ میاں اسلام اسلم نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم ارکان کا خیال رکھیں۔ ارکان اسمبلی بھی انسان ہیں ان کی تنخواہ بڑھائی جائے، اس سے کرپشن کے راستے رکیں گے۔ خالد غنی چودھری نے کہاکہ غربت بڑھ گئی ہے، بیت المال کے فنڈز بڑھائے جائیں، بجٹ کی کتابیں چھاپنے کی بجائے ارکان اسمبلی کو صرف ’’سی ڈی‘‘ دی جائے۔ نعیم قیصر انصاری نے کہاکہ سپورٹس یونیورسٹی قائم کی جائے۔ سردار بہادر خان میکن نے کہاکہ ییلو کیپ کی طرح گرین ٹریکٹر سکیم بھی شروع کی جائے۔ کاظم پیرزادہ نے کہا کہ ماڈل ٹائون واقعہ پر بیحد دکھ اور افسوس ہے۔ خالد محمود ججہ نے کہا کہ اپوزیشن کے نعرے کھوکھلے ہیں۔ الیاس چنیوٹی نے کہاکہ پولیس کیلئے فنڈ زیادہ رکھے گئے ہیں مگر رشوت کم نہیں ہوتی اور وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ نجمہ بیگم نے اپوزیشن ارکان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے شاندار بجٹ پیش کئے جانے پر انکے رنگ پیلے پڑ گئے ہیں۔ میاں شعیب عباسی نے کہا کہ بجٹ میں کسانوں اور غریبوں کو جو سبسڈی دی گئی ہے اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ ارشد خان لودھی کا کہنا تھا کہ بجٹ تو بہت اچھا پیش کیا گیا ہے جس پر وزیر اعلیٰ سمیت وزیر خزانہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ محمد وارث کلو نے کہاکہ میرے علاقے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اقلیتی رکن ذوالفقار غوری کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ میں قائداعظمؒ کے تاریخی مقام پر یادگار قائم کی جائے۔ ملک مظہر عباس کا کہنا تھا کہ میرے علاقے میں خراب سیوریج سسٹم کی وجہ سے لوگ بارش کے دنوں میں حکمرانوں کو بد دعائیں دیتے ہیں۔ بھارتی پیسوں کی بنا پر کالاباغ ڈیم کو سیاسی ایشو نہ بنایا جائے، کالاباغ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
پنجاب اسمبلی