وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دو گھنٹے کے طولانی خطاب میں 2014ءکا وفاقی بجٹ پیش کر دیا۔ دہشت گردی، مہنگائی، لوڈشیڈنگ کے عذاب نے عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اوپر سے گیس کے بِل، بجلی کے بِل، پانی کے بِل سے عوام ”بِل بَلا“ اُٹھے ہیں۔ جب ملک کی مجموعی آبادی کا محض 1 فیصد ٹیکس ادا کرے گا۔ تو پھر گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ وزیر خزانہ نے گذشتہ برس وعدہ کیا تھا کہ ایک لاکھ نئے ٹیکس نادہندگان سے ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ لیکن محض 10 ہزار ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میںلایا جا سکا۔ 32لاکھ ٹیکس نادہندگان کی فہرست ایف بی آر کے پاس موجود ہے۔ لیکن اسٹاک ایکسچینج، رئیل اسٹیٹ، لبرٹی مارکیٹ اور ہال روڈ کے دکانداروں پر ٹیکس لگانے کی سیاسی جرا¿ت کیا موجودہ حکمران پیدا کرسکیں گے؟ ہرگز نہیں۔ کیوں کہ تجارتی طبقہ ہی اُن کا بنک ووٹ ہے، اور سیانے کہتے ہیں۔ بھینسوں کا دودھ دوہنے کے لئے ”کَٹوں“ (بھینس کے بچے) کو خوش رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن کو دوکانداروں کی جماعت کہا جاتا ہے، اور دوکاندار ہر معاملے میں اپنے منافع کو مقدم رکھتا ہے۔اس طرزِ عمل کو شاعر نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
یہی اندازِ تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کی باٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
ٹیکس وصول کرنے کیلئے ریاست کے پاس اخلاقی طاقت ہونی چاہئے۔ جب ملک کے وزیر خزانہ دبئی کے پانچ ستارا ”برج الخلیفہ“ ہوٹل میں اپنی صاحبزادی کے نکاح پر کروڑوں خرچ کر ڈالیں گے تو پھر دوسروں سے ٹیکس کیسے وصول کر پائیں گے۔ مجبوریوں، مصلحتوں کی ماری کمزور کرپٹ حکومتیں کیا ماضی میں بینظیر بھٹو سے ٹیکس وصول کر سکی تھی۔ جن کی تیسری اُنگلی کی صرف ایک انگوٹھی ایک لاکھ ڈالر اور جن کے نیکلس کی قیمت ایک لاکھ پاﺅنڈ تھی۔ آصف زرداری سے ٹیکس وصول کر سکی۔ جس کے اصطبل میں ساٹھ ساٹھ لاکھ کے ارجنٹائنی گھوڑے، دس دس لاکھ کے اونٹ، چار چار لاکھ کے کتے اور چالیس چالیس ہزار کی بھیڑیں تھیں۔ مرحوم اکبر بگٹی سے ٹیکس وصول کر پائی جن کے ذاتی باڈی گارڈز کی تعداد 250 تھی۔ لیکن اِنکم ٹیکس زیرو۔ سردار فاروق احمد لغاری سے ٹیکس وصول کرپائی جو مہران بنک خالی کر دیتے اور ”چوٹی“ میں کروڑوں کا ”ایوانِ صدر“ تعمیر کرتے۔ فیصل صالح حیات سے ٹیکس وصول کر پائی۔ جن کے مرید ہر سال کروڑوں روپے چڑھاوے چڑھا دیتے ہیں لیکن انکم ٹیکس زیرو۔یہ حکومت ان جاگیرداروں سے ٹیکس وصول کر پائے گی۔ جو چودھری، ملک، مخدوم، لغاری، کھوسہ، نواب، بگٹی، مینگل، مگسی، تالپور، شاہ، میمن، ولیقا، سیٹھ، میاں اور بٹ کہلاتے ہیں۔ جن کے بچے دنیا کی مہنگی ترین درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جن کی زمینوں پر لاکھوں مزارے جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ جو ہر سال کروڑوں روپے طوائفوں پر لٹاتے ہیں۔ جو ہر سال یورپ میں چھٹیاں گزارتے ہیں اور جن کے کتے، گھوڑے، اونٹ اور بٹیر دیسی گھی، انڈوں، مربوں اور منرل واٹر پر پلتے ہیں۔ ڈار صاحب آپ کا بھی بس غریب عوام پر چلتا ہے۔ ان طاقت ور اشرافیہ سے آپ کچھ نہیں لے سکیں گے کہ چوروں نے بھی بھلا کبھی زکوٰة دی ہے، اور چیلوں کے گھونسلوں سے کبھی ماس ملا ہے۔
غریبوں کے غم گسار وزیر خزانہ جب شوکت عزیز، سرتاج عزیز، مخدوم شہاب اور عشرت حسین کی طرح اپنے سِلکی سوٹ اور اسمبلی کے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں چیخ چیخ کر غریبوں کی فلاح و بہبود کے سہانے خواب دِکھا رہے تھے تو میرا جی چاہا کہ اُنہیں ایک آفاقی راز سے آگاہ کروں۔ سلطنتوں کی عمارت اور غربت کا پیمانہ یہ ہوا کرتا ہے کہ جن ملکوں کے حکمران غریب ہوتے ہیں۔ وہ ملک امیر ہوتے ہیں، اور جن ملکوں کے حکمران امیر ہوتے ہیں۔ وہ ملک غریب ہوتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں ”امیر چوکیدار، چوکیدار نہیں نقب زن ہوا کرتے ہیں۔“ حکمران وہی زندہ رہتے ہیں جو مظلوموں کے آنسو پونچھتے ہیں، اور تاریخ صرف اور صرف اُن قبروں پر رُکتی ہے۔ جہاں انسانوں کے نجات دہندہ سوئے ہوتے ہیں۔ باقی سب رنگ بازی ہے۔ ٹوپی ڈرامہ ہے۔ اشوک اعظم کے پاس سات لاکھ فوج، دس ہزار جنگی رَتھ اور نو ہزار جنگی تربیت یافتہ ہاتھی تھے لیکن اُس نے ایک ہی حکم نامے سے یہ ساری طاقت بے روزگار کر دی۔ اُسکے مشیروں نے سمجھایا کہ چین کے ہُن اور یونان کے طالع آزما سرحدوں پر کھڑے ہیں۔ ہمارے پاس فوج نہ ہوئی تو وہ حملہ کر دیں گے۔ اشوک نے مسکرا کر جواب دیا۔ میں سات لاکھ کی بجائے سات کروڑ عوام کی فوج تیار کروں گا۔ میں اپنے شہریوں کو اتنا سُکھ، اتنا سکون، اتنا آرام اور اتنا انصاف دوں گا کہ اس ملک کا بچہ بچہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کریگا۔ آج ہزاروں سال بعد بھی ہندوستان میں اشوک کے کھدوائے ہوئے کنویں اور سڑکیں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ حکمران سچے ہوں، مخلص ہوں، اور اُنہوں نے اہلِ زمین پر احسان کئے ہوںتو اُنہیں اسکے اعلان نہیں کروانے پڑتے۔ وائیٹ پیپر شائع نہیں کروانے پڑتے۔ شیر شاہ سوریؒ آج پانچ سو سال بعد بھی زندہ ہے۔ لوگوں کے دِلوں پر آج بھی اُسی کا سِکّہ چلتا ہے۔ جب تک جرنیلی سڑک کا ایک فٹ بھی قائم ہے۔ زمینوں کو بیگھوں میں ماپا جاتا ہے۔ عدالتیں باقی ہیں۔ شیرشاہ سوری زندہ رہے گا۔ڈار صاحب ہماری حکومت اگر اچھا کر رہی ہے تو معاشرے میں نظر کیوں نہیں آرہا۔ اگر خسارہ کم ہوا ہے تو ”ماجے گامے“ تک اُس کا اثر کیوں نہیں پہنچ رہا ہے۔ اگر بیرونی قرضوں میں کمی ہوئی ہے تو اس معاشی اور اقتصادی وسعت کا پھل عام شہریوں کو کیوں نہیں مل رہا ہے۔ اگر افراطِ زر کم ہوا ہے، گروتھ ریٹ میں اضافہ ہوا ہے اور مالیاتی ذخائر نے 10 گنا سے بڑھ کر 14ارب کو چُھو لیا ہے ۔ تو عام آدمی اس کشادگی سے کیوں مبرہ ہے؟ انہیں اس ٹھنڈک کا احساس کیوں نہیں ہو رہا۔ اگر شہر میں پانچ ہزار تندور لگتے ہیں۔ لیکن لوگ اُسی طرح بھوکے سوتے ہیں، اگر پورے شہر میں شامیانے تان دئیے جاتے ہیں لیکن لوگوں کے سروں پر سورج چمکتا رہتا ہے، اور پورا شہر قاضی بن جاتا لیکن لوگوں پر اسی طرح ظلم جاری رہتا ہے تو ان قاضیوں، ان شامیانیوں اور ان تندوروں کا کیا فائدہ؟ اگر کپاس کا پورا کھیت مِل کر بھی کسی کا سَتر نہ ڈھانپ سکے تو اس کھیت کو جلا دینا چاہئے۔ اگر معاشی خوشحالی ہے تو وہ کہاں ہے؟ پس حضور والا! غریب عوام اگر باہر نکل آئے تو پھر اُنہیں کینیڈین عامل کی ضرورت ہوگی نہ چودھری شجاعت کے انقلاب کی، اور نہ ہی شیخ رشید کے ٹرین مارچ کی۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، اور ایسی ضرورت میں عوام خود ہی اپنی ”گلوٹین“ ایجاد کرلیا کرتے ہیں۔ سُو ڈریں اُس وقت سے جب مزدور شاعر علی مطاہر اشعر کو اپنے بیٹے کیلئے یہ شعر کہنا پڑا۔
مٹی کا کھلونا بھی اُسے میسر نہیں آیا
میں اُس کی خوشی لے کر کبھی گھر نہیں آیا