علامہ طاہر القادری نے بھی ریاست میں ریاست بنا رکھی ہے۔ لاہور کو وزیرستان بنانے کی کوشش ناکام کرنے میں معاملہ ’’مِس ہینڈل‘‘ ہو گیا۔ مقتولین کے لہو کا حساب قادری صاحب کی گردن پر بھی ہو گا۔ پاکستان میں مذہبی جماعتیں مافیا کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ وہ زمانہ گیا جب پیران مریدین کے جواب دہ ہُوا کرتے تھے، یہ پاکستان کے پیران ہیں، مریدین سے سیاسی غنڈہ گردی کراتے ہیں۔ اسی پاکستان میں پولیس اور سکیورٹی کے اہلکاران مارے جاتے ہیں مگر پولیس کے خلاف ہمیشہ منفی پروپیگنڈا ہی سُنا گیا۔ قادری صاحب نے مریدین کو مزاحمت کا حکم دیا، جذباتی احکامات صادر کئے، انقلاب کے بارے میں برین واشنگ کی تو پھر نتائج کے بھی وہی ذمہ دار ہیں۔ دین کو جس افسوسناک طریقے سے پاکستان میں بطور سیاست استعمال کیا جا رہا ہے، اسے صرف ’’چنگیزی‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اقبالؒ نے جس سیاست کی بات کی تھی وہ پاکستانیوں کو دیکھنا نصیب نہ ہو سکی البتہ ’’چنگیزی‘‘ نے دین کی جگہ لے لی۔ جس مافیا کے مریدوں سے بات کرو یہ مصرعہ سُنا دیتا ہے ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔ علامہ قادری کے ایک مبینہ خواب میں موصوف کی عمر سُنتِ نبویؐ کے مطابق ہو نا تھی، انہیں تریسٹھ برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کرنا تھا مگر خدا نے ان کی زندگی بڑھا دی۔ دنیا بھر میں بزدل پیران اپنے مریدوں کے محتاج ہیں۔ مریدوں کی زندگی کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ ماڈل ٹائون لاہور کے المناک واقعہ میں بھی سادہ لوح مرید مارے گئے۔ انتظامیہ اور قادری ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ کبھی ٹرین مارچ کی دھمکی دی جاتی ہے، کبھی دھرنے، کبھی جانوں کے نذرانوں کی تڑیاں دی جا رہی ہیں، کبھی تختہ الٹنے کی باتیں ہو رہی ہیں یعنی دشمن اپنی ہر چال میں عیار پایا گیا۔ اشتعال انگیز بیانات کے ردعمل میں وہی ہو نا تھا جو لاہور میں ہوا۔ وزیرستان میں بھی یہی کچھ ہو رہاہے، وہاں بھی طالبان کے نام سے کرائے کے دہشت گرد پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مشن پر کاربند ہیں، ادھر پنجاب میں چھوٹی (ی) طالبان بنی ہوئی ہے۔ شریفوں کی مخالفت میں پورے ملک کو وزیرستان بنانے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ ریاست کو بے یارو مددگا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ مزاحمت ہو گی تو گولیاں بھی چلیں گی۔ اسلام کو ایکسپلائیڈ کیا جا رہا ہے۔ ’’درود شریف بینک‘‘ کی شعبدہ بازی بھی صرف پاکستان میں سُنی جا سکتی ہے۔ قادری صاحب خوابوں کے بہت قائل ہیں تو ایک خواب کا ذکر ہم نے بھی اپنے ایک گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں ایک انتہائی دراز قد باریش بزرگ دیکھے۔ بزرگ نے سفید عمامہ اور سفید لباس پہن رکھا تھا۔ بزرگ پاکستان آئے ہوئے تھے اور پاکستان کے حالات دیکھ کر بے حد مغموم تھے۔ ان صاحب نے بزرگ سے پوچھا کہ وہ کہاں سے تشریف لائے ہیں، انہو ں نے بتایا کہ بظاہر ان کا انتقال ہو چکا ہے مگر وہ روحانی طور پر وہ حیات ہیں۔ پاکستان کے حالات دیکھ کر ان کا دل غمگین ہے، وہ اس ملک میں مزید دیر تک رکنا نہیں چاہتے مگر اللہ کی مرضی کے بغیر واپسی بھی ممکن نہیں۔ چند مذہبی و سیاسی قائدین کو بھی دیکھا جو بزرگ کی آمد پر پریشان تھے اور سرگوشیوں میں ناگواری کا اظہار کر رہے تھے کہ یہ بزرگ واپس کیوں نہیں جاتے۔ اتنے میں کچھ مذہبی جماعتیں بڑے بڑے بینرز اٹھائے ہوئے دکھائی دئیے، ان پر روضۂ اطہرؐ کی تصاویر بنی ہوئی تھیں، یہ لوگ عشقِ نبیؐ میں جلوس نکالے جا رہے تھے۔ وہ بزرگ یہ دیکھ کر مزید اداس ہو گئے اور فرمایا کہ یہ لوگ گنبدِ خضرا ؐ کی تعظیم نہیں کر رہے، یہ بے ادبی ہے۔ ان بزرگ کے بارے میں ایک شخص بولا یہ بزرگ مکہ کے سردار اور صفیہؓ کے والد ہیں۔ آقا نامدار محمد مصطفیٰ ﷺ کے دادا ہیں اور نواسے کی اِمت کا حال دیکھ کر غمگین ہیں‘‘ ۔۔۔! سیاستدان تو ہمیشہ سے خراب مشہور ہیں مگر مذہبی قائدین نے ’’چنگیزی‘‘ کا جو وطیرہ اپنا رکھا ہے، اس نے اسلام کو داغدارکیا ہے۔ نام نہاد پیران کے سادہ مریدوں پر رحم آتا ہے۔ الا ماشأاللہ ان کے مشائخ و پیران بڑے سنگدل لوگ ہیں۔ ان مذہبی کلٹ کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ ان کی اولادیں گدیاں سنبھال کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ خدا کی قسم! صرف خدا کے کرم سے ہی ان مافیا سے نجات پا ئی جا سکتی ہے۔ مہناج القرآن کے سابق میڈیا منیجر اور پرسنل سٹاف افسر رضا خان بتا رہے تھے کہ ماڈل ٹائون میں ڈاکٹر صاحب کا علاقہ ’’نو گو ایریا‘‘ بنا ہوا ہے، اہل محلہ کو شدید دقت کا سامنا ہے، خواتین کو بھی مریدین سکیورٹی گارڈز سے منہ ماری کرنا پڑتی ہے اورجو شخص سکیورٹی کی خاطر اپنا ملک ہی چھوڑ گیا، وہ حکومت کی سکیورٹی کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے؟ منہاج القرآن انٹرنیشنل کو منی لانڈرنگ ’’ہُنڈی‘‘ سسٹم کا بھی حساب دینا ہو گا۔ ماڈل ٹائون کی آٹھ لاشوں کا بھی حساب ہو گا۔ حکومت پاکستان نے لندن کے ساتھ تعاون کیا، حالیہ واقعہ کے بعد کینیڈا کے ساتھ بھی تعاون کیا جائے تاکہ ان لوگوں کے خفیہ کھاتے بے نقاب ہو سکیں۔ قادری صاحب کے سابق مرید اور ہمراز مزید بتا رہے تھے کہ مرید سادہ مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور شیخ صاحب ان کی اولاد ٹھنڈے ملکوں میں عیش کر رہے ہیں ۔ چندوں سے ذاتی زندگی کے لوازمات بھی خریدے جاتے ہیں۔ مرید مر رہے ہیں اور ان کے بچے بیرون ملک میں محفوظ ہیں۔ موصوف غیر ملکی ایجنڈا لے کر آ رہے ہیں۔ یہ شخص فوج کے خلاف ہے، وزیرستان اپریشن ناکام بنانے کی کوشش پر فائز ہیں۔ دشمن خانہ جنگی کا ماحول بنا رہا ہے تاکہ پاک فوج کی توجہ اصل مقصد سے ہٹا دی جائے۔ فوج اور حکومت کے خلاف تمام سازشیں بے نقاب ہو رہی ہیں۔ لیکن اللہ کے فضل و کرم سے حکومت اور فوج ہر قسم کی مخالفت، سازش اور مزاحمت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔