رمضان المبارک اور اصلاح معاشرہ

Jun 19, 2015

حافظ محمد سعید

رمضان المبارک… سعادتوں، برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوںوالا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور پوری امت مسلمہ کو اس مہینہ کا حق ادا کرنے اور وہ عبادت جو اللہ کو پسند ہو ۔کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ اس رمضان المبارک کو پاکستان اور امت مسلمہ کیلئے برکتوں، سعادتوںاور کامیابیوں والا بنا دے۔ لوگ دنیوی اعتبار سے رمضان المبارک کی آمد کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ گھروں میں مہینے بھر کی اشیاء خوردونوش کی لمبی چوڑی لسٹیں بنتی ہیں، بھرپور خریداری کی جاتی ہے، بازاروں میں رش بڑھ جاتا ہے، حکومت بھی لوگوں کی سہولت کی خاطر سستے رمضان بازار لگاتی ہے۔ ان سب باتوں کی اہمیت اپنی جگہ … ان سے انکار ممکن نہیں۔ رمضان المبارک بطریق احسن گزارنے کیلئے ان ضروریات زندگی کا ہونا ضروری ہے لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ کچھ ضروریات اور لوازمات ان سے بھی زیادہ ضروری ہیں۔ وہ یہ کہ رمضان المبارک میں عبادات کی ترتیب کیا ہو گی؟ گھر میں روز کتنے سیپارے پڑھے جائینگے؟ نوافل کتنے ادا کئے جائینگے؟ قیام اللیل کا اہتمام کیسے ہو گا؟ بچوں کی اصلاح کیسے ہو گی؟ گھر کا ماحول کیسے اسلامی بنایا جائیگا؟ ان کو روزہ رکھنے کی ترغیب کیسے دلائی جائیگی؟ رب کو کیسے منایا جائے گا؟ گناہوں کو کیسے بخشوایا جائیگا؟ رمضان کا حق کیسے ادا ہو گا اور روزہ کو بامقصد کیسے بنایا جائیگا؟ ہر شخص اپنے انداز، اپنے حساب اور اپنے طور طریقے کے مطابق رمضان المبارک کا اہتمام و استقبال کرتا اور اسکے فائدے سمیٹتا ہے۔ ذخیرہ اندوز‘ ذخیرہ اندوزی کر کے اشیاء خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرتا ہے۔ دکاندار قیمتیں بڑھا کر مالی فائدے سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے، کپڑے کا کاروبار کرنیوالا سال بھر کی کمائی ایک مہینے میں کر لینے کی فکر میں رہتا ہے، خواتین چاہتی ہیں کہ سحروافطار میں کھانے پینے کا پرتکلف انتظام ہو۔ ان میں سے کوئی ایک مقصد بھی رمضان المبارک کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کیا ہم نے رمضان کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تزکیہ نفس اور اپنا محاسبہ کیا… یا نہیں؟ کیا کسی نے سوچا اور اس بات کا جائزہ لیا کہ اسکے ایمان کا لیول کتنا بڑھا؟ ایمان کتنا مضبوط ہوا؟ رب کے ساتھ تعلق کتنا بڑھا؟ بیوی بچوں کی کتنی اصلاح ہوئی؟ اور اہل خانہ کو رب کا کتنا قرب حاصل ہوا؟رمضان المبارک کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا تزکیہ ہو، معاشرہ کی اصلاح ہو، اللہ کا قرب حاصل ہو، عبادات میں پختگی ہو، جنت کی طلب ہو، جہنم سے نفرت ہو، تلاوت میں باقاعدگی ہو، رزق حلال کی چاہت ہو، رزق حرام سے اعراض ہو، تقویٰ کے حصول کا جذبہ ہو، ایمان کی لذت و حلاوت ہو، ہاتھ میں سخاوت ہو، سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہو، مسجد سے الفت ہو اس لئے کہ رمضان کے مہینے میں کثرت سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کو تلاش کرتے ہیں کہ کون نماز پڑھ رہا ہے؟ کون تلاوت کر رہا ہے؟ کون جہاد کر رہا ہے؟ کون صدقہ و خیرات کر رہا ہے؟ کون امر بالمعروف اور کون نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہا ہے؟ کون اپنے گھروں کی اور معاشرے کی اصلاح کر رہا ہے؟ کون اپنے بچوں کو نیکی کی تلقین کررہا اور کون روزے رکھ رہا ہے…؟
یاد رکھئے! انسانی زندگی کا سب سے خطرناک مرحلہ اور لمحہ وہ ہوتا ہے … جب کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں بھری زندگی انسان کا معمول بن جائے، انسان نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت کا احساس و شعور کھو بیٹھے اور گناہ… کو گناہ سمجھنا چھوڑ دے۔ یہ صورتحال یقینی طورپر انسان کی تباہی و بربادی اور جہنم کی سوداگری کا باعث بنتی ہے لیکن جب انسان غلطی کو غلطی اور گناہ… کو گناہ سمجھے تو اس کو تائب ہونے اور اصلاح کی توفیق بھی نصیب ہو جاتی ہے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ روزہ صرف اس شخص کا اللہ کے ہاں قابل قبول ہے جو رمضان المبارک میں اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے بیوی بچوں، کاروبار، معاملات اور معمولات کی اصلاح کر لے۔ اصلاح کیلئے رمضان سے زیادہ اچھا اور بہتر مہینہ کوئی نہیں۔ رمضان المبارک جہاں نزول قرآن اور گناہوں کی بخشش کا مہینہ ہے وہاں یہ اسلامی تہذیب کا مظہر، اخوت و ہمدردی، ایثار وقربانی، جودوکرم، صبروتحمل ، جہاد و قتال اور افرادو معاشرہ کی اصلاح کا مہینہ بھی ہے۔ جب انسان سحری سے افطاری تک کھانے پینے اور فواحش ومنکرات سے بچتا ہے تو اس میں صبرو تحمل پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں روزے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔ رمضان میں گناہ کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جاتاہے۔ معمولی نیکی کا اجر بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ نیکی کرنا اور گناہ سے بچنا … یہ عمل افراد اور معاشرہ کی اصلاح کی بنیاد ہے۔ یاد رکھئے! جو بندہ اپنی ، اپنے گھر اور اپنے بیوی بچوں کی اصلاح کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو نیکی کے بڑے بڑے کام کرنے کی توفیق عطا کرتا اور اسے اپنے دین کیلئے منتخب کر لیتا ہے۔ رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ احادیث میں مذکور ہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام رمضان میں ہر رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیلئے آتے اور قرآن کا دورکرتے تھے۔ جب قرآن کا دور مکمل ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوتے۔ خوشی و مسرت کا اظہار آپکے چہرہ اقدس پر نمایاں ہوتا۔ تلاوت قرآن مجید کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں صدقہ بھی کثرت سے کرتے۔ یاد رکھئے! رمضان صدقے کا مہینہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جفت (دو دو چیزیں) صدقہ کرتا ہے جنت کے فرشتے اسے آٹھوں دروازوں سے آواز دینگے کہ تو ہمارے دروازے سے داخل ہو جا۔ سبحان اللہ…! کیا فضیلت اور برکت ہے رمضان کے مہینے کی اور موسموں کی شدت کو برداشت کرنے کی ۔مشقت جتنی زیادہ ہو اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزہ رکھنا زیادہ مشقت اور تکلیف کا باعث ہوتاہے۔ دنیا کی گرمی جہنم کی گرمی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ بھائیو یادرکھو! اگر دنیا کی گرمی جھیل کر آخرت کی گرمی سے نجات مل جائے تو یقینا یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔

مزیدخبریں