پاکستان بیت المال کا کمال اور نظریاتی ایٹم بم

پاکستان بیت المال کے پنجاب سیکشن نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ساتھ بہت تعاون کیا۔ پنجاب میں ڈائریکٹر بیت المال محمد ظہیر ایوان کارکنان پاکستان تشریف لائے۔ یہ عجیب ایوان ہے جو کارکنوں کا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مرحوم غلام حیدر وائیں اور چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی نے مل کر یہ ایوان بنوایا۔ آج بھی وائیں صاحب کی تصویر ہال میں لگی ہوئی ہے۔ ان کی بیگم مجیدہ وائیں کو بھی یہاں بہت عزت دی جاتی ہے۔ ایوان اقبال بھی اقبال سے عشق کرنے والوں کے لئے نظامی صاحب نے بنوایا مگر اب وہ حکومت پاکستان کی تحویل میں ہے۔ اور برباد ہو رہا ہے۔ اس سال ایوان قائداعظم مکمل ہو جائے گا۔ کاش اسے مجید نظامی دیکھتے مگر وہ اب بھی دیکھ رہے ہوں گے۔ شاہد رشید اور ان کی ٹیم نے اس کے لئے بہت محنت کی ہے۔
پاکستان بیت المال کے پنجاب سیکشن کے ڈائریکٹر محمد ظہیر نے مکمل تعاون کیا۔ یہ سب کچھ اسلام آباد بیت المال کے سربراہ بیرسٹر عابد وحید شیخ کی اجازت سے ہوا۔ شاہد رشید نے محمد ظہیر اور بیرسٹر عابد وحید شیخ کا شکریہ ادا کیا۔ برادرم عثمان صاحب نے کارکنان پاکستان کو چیک پہنچائے۔ وہیل چیئرز بھی ان کے حوالے کیں۔ دوسرے دوست سیف اور عباس اور ناہید کی خدمات بھی قابل ذکر ہیں مگر عثمان صاحب نے اس معاملے میں اصل کام کیا۔ خاص طور پر کارکنان پاکستان جو معذور ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے بیت المال کی طرف سے بہ کچھ پیش کیا گیا۔ اور ہر طرح کی پیشکش کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ ان کے علاج معالجے کے لئے پیسے فراہم کئے جائیں گے۔
اس کے علاوہ چائلڈ لیبر سکول میں 3500 بچوں کی کفالت اور نگہداشت کے لئے ان کی گریجوایشن تک پوری مدد کی جائے گی۔ تحریک پاکستان کے 23 لوگوں کے لئے فی کس پچاس ہزار روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پہلے 9 آدمیوں کو گورنر پنجاب نے پیش کئے۔ مستحق عورتوں کے لئے سلائی مشینیں بھی دی گئی ہیں۔
شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ساتھ بیت المال کی طرف سے گریٹ ہوم بنایا جا رہا ہے۔ ورلڈ ہوم کے لئے گریٹ ہوم کا نام اچھا لگا۔ پہلے پہل 25 خواتین و حضرات کے لئے انتظام ہو گا۔ اچھی رہائش دی جائے گی۔ ائرکنڈیشنر کا اہتمام ہو گا۔ 60سال کے اوپر کے لوگوں کو یہ سہولتیں دی جائیں گی۔
عالمی چائلڈ ڈے پر پاکستان بیت المال کی طرف سے ایک تقریب ہوئی جس میں بیرسٹر عابد وحید شیخ نے بھی شرکت کی۔ پنجاب کے محمد ظہیر بھی موجود تھے۔ میں بھی تھوڑی دیر کے لئے شریک ہوا۔ میں نے کہا کہ پہلے قومی خزانے کا نام بیت المال ہوتا تھا۔ بیت المال ہمیشہ بھرا رہتا تھا اور مستحق لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا تھا۔ اور کاروبار حکومت بھی چلتا تھا۔ حکمرانوں کو وظیفہ بھی ملتا تھا۔ وظیفے اور تنخواہ کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا؟
بیرسٹر عابد وحید شیخ نے بتایا کہ اس بار ہمارے حالات اچھے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے 4 ارب روپے پاکستان بیت المال کو دیے ہیں۔ ہم بیت المال کو ایک نیا انداز دے رہے ہیں۔ یہ پہلے سے بہت فعال ہو گا۔ اب کوئی بھی بیت المال کو اپنے باپ کا مال نہیں سمجھے گا۔ ہم پوری چھان بین اور دیکھ بھال سے اصل حقدار تک مال پہنچائیں گے۔ اللہ کرے شیخ صاحب اور ظہیر صاحب اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں۔
آج کی تقریب میں حاضرین صرف بچے تھے۔ میری گذارش ہے کہ بچوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ یہی ہمارا مستقبل ہیں۔ یہ ایوان کارکنان پاکستان میں اکٹھے ہوئے ہیں تو ان کا حق فائق ہے۔ شیخ صاحب اور ظہیر صاحب بہت دل والے آدمی ہیں۔ امید ہے کہ اب بیت المال ترقی کرے گا اور قومی خزانے سے بہتر کام کرے گا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ بھی ان کی خصوصی توجہ کا منتظر ہے۔ ہم ان کے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم نے پہلی بار بیت المال کو اتنے جذے سے کام کرتے دیکھا ہے۔
میں نے اسی ہال میں نظریاتی سمر سکول کے بچوں سے کچھ دن پہلے باتیں کیں۔ وہ مختلف سکولوں سے آتے ہیں۔ 15 سالوں سے یہ معاملہ چل رہا ہے۔ یہ ایک مہینے کے لئے ہوتا ہے مگر اسے عمر بھر بچے یاد کرتے ہیں۔ اب برادرم شاہد رشید کہہ رہے ہیں اور یہ ڈاکٹر مجید نظامی کا بھی خیال تھا کہ اس سکول کو پورے سال تک بڑھا دیا جائے تاکہ یہ سال کئی سالوں کا سال بن جائے۔
میں نے بچوں کے لئے کہا کہ بچے جنت کے باشندے ہوتے ہیں۔ ان کا بینک بیلنس نہیں ہوتا۔ ان کا ووٹ بھی نہیں ہوتا۔ بڑی بڑی خواہشیں نہیں ہوتیں۔ ان کے پاس معصومیت ہوتی ہے۔ بھولپن کا بانکپن ہوتا ہے۔ وہ یہاں سے یہ عزم لے کے جائیں کہ پورے معاشرے کو جنت بنا دیں گے۔ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے لئے چٹان بن جائیں گے۔ جس طرح کی ان کی تربیت ہوتی ہے تو یہ بچے نظریہ پاکستان کے اصل محافظ بن جاتے ہیں۔ جس مزے سے وہ ترانہ پڑھتے ہیں، مزا آ جاتا ہے۔ میں نے بھی یہاں سے ان کی طرح ترانہ پڑھنا سیکھا ہے۔ ڈاکٹر رفیق احمد ان کی صحیح تربیت کرتے ہیں۔ سکول کی پرنسپل بہت اچھی خاتون محترمہ نواز قریشی ہیں دوسری ٹیچر بھی بہت دلچسپی لیتی ہیں۔ ہماری اسمبلیوں میں جتنے ممبران ہیں ان میں سے 90 فیصد کو ترانہ نہیں آتا۔ ایک دفعہ مہناز رفیع نے کہا تھا کہ ان سب کا ایک ہفتے کے لئے نظریاتی سمر سکول میں داخل ہونا لازمی قرار دیا جائے۔ مہناز رفیع نے یہ بھی کہا تھا کہ ایوان کارکنان پاکستان قائداعظم کا گھر ہے۔ ثریا خورشید اور ڈاکٹر پروین خان اسے اپنی پناہ گاہ سمجھتی ہیں بشریٰ رحمان کو مجید نظامی نے دختر پاکستان کہا تھا اس کے لئے تو یہ جگہ میکے کی طرح ہو گی۔
یہاں کچھ دن پہلے نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی تشریف لائے تھے۔ انہوں نے بہت خوب بات کی کہ ہمارا ایٹم بم نظریاتی ایٹم بم ہے۔ پہلے پہل ہمارے ایک مہینے کے مستقل سکول کا نام سمر سکول تھا۔ مرشد و محبوب مجید نظامی نے اسے نظریاتی سمر سکول کا نام دیا۔ اب اس کے ثمرات زیادہ گہرے ہو گئے ہیں۔ نظامی صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے ایٹم بم سے باندھ کر بھارت پر پھینک دیا جائے تو اس کے بعد تو اسے نظریاتی ایٹم بم کہا جائے۔ آسی صاحب کا شکریہ پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم بھی کہا گیا۔ ہندو اور بھی ڈر جائے گا جب نظریاتی ایٹم بم کہا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...