لاہور (سید شعیب الدین سے) 9 برس قبل لندن میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے آمریت کے خلاف اکٹھے جنگ لڑنے کیلئے جوعہدوپیمان کئے تھے، آج ان میں سے ایک جماعت کے شریک سربراہ نے اپنے ایک بیان کے ذریعے 2009ء میںاکٹھے ہونے والے حریفوں کو ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ آصف زرداری کے فوجی قیادت کے اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیان نے اسٹیبلشمنٹ کے تمام ستونوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ آج بظاہر متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی پیپلز پارٹی کے عقب میں کھڑی نظر آتی ہے۔ مگر کسی دبائو کے نتیجے میں یہ اپنی پوزیشن بدل سکتی ہے اور پھر آصف زرداری میدان میں تنہا کھڑے رہ جائیں گے اور کسی بھی محاذ پر کوئی جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔ سیاسی پنڈت اس بات پر اب قائل نظر آتے ہیں بلاول بھٹو کو جلد بازی میں پارٹی کا چیئرمین بناکر جو غلطی کی گئی تھی انہیں اب اپوزیشن لیڈر بنانے کی کوشش کرکے غلطی دہرائی جارہی ہے۔ اس کشمکش کے دوران مسلم لیگ ن کی قیادت کو یہ موقع میسر آگیا ہے کہ وہ فوج سے اپنی دیرینہ مخاصمت کو دوستی میں تبدیل کرلے۔ لہٰذا وزیراعظم نوازشریف نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر آرمی چیف کو روس ٹیلی فون کرکے یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے وہ، ان کی حکومت اور پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کی سیاسی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یاد رہے نواز شریف پر ان کے مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں فوج سے ان کی مخاصمت دیرینہ ہے اور یہ اس وقت نکتہ عروج پر پہنچی جب مشرف کے ٹرائل کا فیصلہ کرکے انہوں نے ایک سابق آرمی چیف کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ سیاسی پنڈت حیران ہیں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والا واحد پاکستانی لیڈر جس نے پہلے 3 آرمی چیف سے مخاصمتیں مول لیں آج کیسے موجودہ آرمی چیف کی حمایت میں اپنی سیاسی روایات کو بھلا کر اتنا بڑا قدم اٹھا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے سابق صدر آصف زرداری جن کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور جنہیں ان کے ’’قریبی دوست‘‘ اپنے اقبالی بیانات کی صورت میں زچ کررہے ہیں۔ ان حالات میں کیا آصف زرداری اپنی ذات اور اپنی جماعت کو موجودہ بحران سے نکال پائیں گے۔ کیا وہ بلاول بھٹو کو ایک مضبوط سیاسی کیریئر کا آغاز فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ نوائے وقت نے آصف زرداری کے بیان پر پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی تو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا ’’کھلا پاگل پن‘‘ ہے۔ پنجاب کے ایک سرکردہ لیڈر نے کہا آصف زرداری نے جو کہا وہ نہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ پارٹی مفاد میں ہے۔ آصف زرداری کیلئے بہتر یہی ہے وہ خود کو پارٹی معاملات سے الگ کرکے پارٹی کو مکمل طور پر بلاول بھٹو کے حوالے کردیں۔ تاہم آصف زرداری کے بیان پر فوج کی طرف سے دانشمندی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور آصف زرداری کے ’’گرم لہجے‘‘ کے جواب میں وہاں پر ’’پراسرار خاموشی‘‘ ہے۔ تاہم اس دوران رینجرز، پولیس اور نیب کی طرف سے پارٹی رہنمائوں کے جن ’’فرنٹ مینوں‘‘ پرہاتھ ڈالا گیا ہے، وہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، کی طرف واضح اشارہ ہے۔ آصف زرداری کیلئے ایک لمحہ فکریہ ان کی گرم تقریر کے بعد ان کی پارٹی کے دو سرکردہ لیڈروں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے استعفوں کی باتیں سنی جانا ہے۔