ٹیکس وصولی کا نظام آسان ہونا چاہئے، تعلیم، صحت کے بجٹ میں اضافہ خوش آئند ہے: نوائے وقت گروپ کے زیر اہتمام مجلس مذاکرہ

Jun 19, 2015

لاہور (سیف اللہ سپرا) مرکزی اور پنجاب حکومت کی جانب سے سال 2015-16 کے لئے پیش کئے جانے والے بجٹ کے حوالے سے نوائے وقت گروپ کے زیراہتمام ایوان وقت میں منعقدہ مذاکرے میں سیاستدانوں، تاجر تنظیموں کے رہنمائوں اور ماہر اقتصادیات نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹیکس وصولی کے نظام کو آسان ہونا چاہئے۔ ٹیکس کی شرح میں کمی ہونی چاہئے تعلیم اور صحت کے لئے بجٹ میں اضافہ خوش آئند ہے۔ مذاکرے کے شرکاء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کے کوآرڈی نیٹر نوید چودھری، لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر سید محمود غزنوی، آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر محمد اشرف بھٹی، پاکستان مسلم لیگ ٹریڈرز ونگ پنجاب کے سینئر نائب صدر اور لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن خواجہ خاور رشید اور معروف ماہر اقتصادیات و ہیڈ ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل تھے۔ مذاکرے کی نظامت انچارج ایوان وقت سیف اللہ سپرا نے کی۔ نوید چودھری نے بجٹ پر گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ جتنے دعوے پنجاب حکومت نے صوبے کے اندر تعلیم کی ترقی اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کا ڈھنڈورا پیٹا ہے حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جو بجٹ کے اندر رقم تعلیم اور صحت کے شعبے کے لئے مختص کی گئی ہے اس کا زیادہ تر حصہ تو انتظامی امور میں ہی ختم ہو جائے گا اور عوام اسی بے حالی اور ابتری کی حالت میں رہے گی جس طرح پہلے گزارا کر رہی ہے۔ اسی طرح دس لاکھ نوکریوں کی جو نوید سنائی گئی ہے وہ ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ عملی طور پر اس میں پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ یہ بجٹ الفاظ کا لولی پوپ ہے۔ سید محمود غزنوی نے بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے سروسز پر جو 16 فیصد سیلز ٹیکس لگایا ہے یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت ٹیکس لینا نہیں چاہتی۔ صرف کرپشن چاہتی ہے۔ پنجاب بجٹ میں 150 ارب روپے جو فارم ٹو مارکیٹیں سڑکیں بنانے کے لئے رکھا ہے اس سے پنجاب میں کسان خوشحال ہو گا اور معاشی خوشحالی آئے گی۔ ٹیکس کی وصولی کے نظام کو آسان بنایا جانا چاہئے۔ ٹیکس کی شرح بھی کم ہونی چاہئے۔ وفاقی حکومت نے اس سال کے لئے 3100 ارب روپے کا ٹیکس کا ٹارگٹ متعین کیا ہے جو ہمارے خیال میں ٹیکس ڈرون ہے۔ محمد اشرف بھٹی نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ متوازن بجٹ ہے۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے ہمارے پاس صرف ایک ٹیکس کا ذریعہ ہے۔ یہ خسارا پورا نہیں کر سکے گا۔ گذشتہ برس 28 ارب کا ٹارگٹ تھا مگر 26 ارب کے قریب ٹیکس اکٹھا ہو سکے گا لیکن اس دفعہ 31 ارب کا ٹارگٹ دیا جا رہا ہے جو بظاہر ناممکن ہے۔ اس لئے ہم خود تاجر حکومت کو مشورہ دیں گے کہ وہ ٹیکس کے نظام میں وسعت لائے کیونکہ ہمارے ملک میں براہ راست ٹیکس سسٹم نافذ کیا ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکس پر انحصار زیادہ ہونا چاہئے۔ پنجاب گورنمنٹ نے جو پراپرٹی ٹیکس نہیں بڑھایا ہے یہ بھی عوام کے لئے مثبت قدم ہے۔ جو نئے ٹیکس نافذ کئے جا رہے ہیں یہ بھی اچھا اقدام ہے۔ خواجہ خاور رشید نے کہا کہ بجٹ متوازن ہے جس طرح لوگ خوفزدہ تھے کہ بجٹ سخت ہو گا وہ خدشات ختم ہو گئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے 2015-16 کا جو بجٹ دیا وہ 1447ارب کا پیش کیا ہے۔ اس میں جو مزدور کی کم از کم اجرت 12 ہزار سے بڑھا کر 13 ہزار کی گئی ہے اس کو کم از کم پندرہ ہزار ہونا چاہئے تھا۔ جو پنجاب میں تعلیم اور صحت کے لئے اضافہ کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ اس سال مزید 4 دانش سکول قائم کئے جائیں یہ بھی اچھا اقدام ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل نے بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال سے اقتصادی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ افراط زر گیارہ سال کے عرصہ میں کم ترین سطح پر ہے۔ مالی خسارہ کم ہوا ہے۔ اور جو سٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ دیا ہے وہ پچھلے سال میں کم ترین سطح پر ہے۔ برآمدات میں بدقسمتی سے کمی ہوئی ہے جو کہ ایک خطرناک بات ہے۔ مجموعی طور پر معیشت میں بہتری کا رجحان ہے مگر ہمیں دیکھنا ہے کہ اس بہتری کا پاکستان کے عوام پر کیا اثرات ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس میں جو چھوٹ دی گئی ہے اور کچھ حصوں میں استثنیٰ دیا گیا ہے وہ نقصان دہ ہے۔ اس سے ٹیکس سسٹم میں خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امیر امیر تر ہو گیا ہے اور غریب غریب تر ہو گیا۔ یہ بھی توجہ دی جائے اس وقت پاکستان میں 65 ہزار کے قریب رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں جن میں سے صرف 23 ہزار ٹیکس ادا کرتی ہیں ان 23 ہزار میں سے تقریباً 11 ہزار کمپنیاں صفر منافع ظاہر کرتی ہیں۔ میری تجویز ہے کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے۔ زراعت کا شعبہ جو پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے لئے کم بجٹ رکھا گیا اور جو ترغیبات دی گئی ہیں اس سے اس شعبے کی ترقی مشکل ہے۔ چھوٹے کسان کو شوگر مافیا سے بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ خصوصاً موسم کی تبدیلی نے چھوٹے کاشتکاروں کو بہت متاثر کیا ہے۔ 16 گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم 15 فیصد اضافہ کیا جائے اور 17 ویں گریڈ سے اوپر کم از کم دس فیصد اضافہ کیا جائے۔ میری حکومت سے گذارش ہے کہ غریب کو فوکس کیا جائے۔

مزیدخبریں