حوصلہ شکنی کی پالیسی سے ملکی مہارت بیرون ملک کا رخ کرتی ہے: جسٹس جواد

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں پاکستان میڈیکل ڈینٹل کارپوریشن کی جانب سے غیرملکی ڈگریوں کی تصدیق اور میڈیکل کالجز کے الحاق رجسٹریشن سے متعلق متفرق درخواستوں کی سماعت میں عدالت نے 4 سو سے زائد انفرادی درخواست گزاروں سے متعلق تمام ہائی کورٹس کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کیسز کو سنیں جبکہ ڈگریوں کی تصدیق الحاق پالیسی اور قانون سازی سے متعلق احمد ندیم اکبر و دیگر 17 درخواست گزاروں سے متعلق مقدمہ کی سماعت 10 روز کے لئے ملتوی کر دی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سب کچھ سرکار کا کیا دھرا ہے۔ معاملے پر اب عدالت فیصلہ دے گی کل ان ہی بچوں نے ڈاکٹرز بن کر قوم کی خدمت کرنا ہے۔ حوصلہ شکنی کی پالیسیوں کی بدولت ملکی مہارت بیرون ملک کا رخ کرتی ہے۔ میڈیکل سٹوڈنٹس ہمارے بچوں کی طرح ہیں۔ ان کے والدین میڈیکل ڈگری کے لئے بھاری فیسیں بھرتے ہیں۔ ایڈووکیٹ قمر افضل نے کہا کیوبا، پانامہ، چائنہ میں ہائی کورٹ نے یہ معاملہ طے کیا ہے۔ دوران سماعت پاکستان سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر عامر نے روسٹرم پر آ کر حمایت کرتے ہوئے کہا فارن میڈیکل ڈگری ہولڈرز کا مستقبل پاکستان میں تاریک ہو جائے گا۔ جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے کہا کہ آپ فارن ڈگری کے معاملے کی وکالت نہ کریں۔ آپ جیسے لوگوں کو تو اڈیالہ جیل ہونا چاہئے یہی آپ کا علاج ہے۔ آپ لوگ ہر معاملے پر سیاست چمکاتے ہیں۔ امتحان دیتے وقت اس بات کا خیال ضروری رکھنا چاہئے کہ وہ میڈیکل کالج متعلقہ اتھارٹی سے تصدیق شدہ ہے کہ نہیں۔ پی ایم ڈی کے وکیل اور محکمہ کی خاتون افسر نے عدالت کو آگاہ کیا جو سٹوڈنٹس ڈاکٹر ڈگری ہولڈر ان کا تجویز ٹیسٹ (NEB) دیں تو فارن ڈگری کی تصدیق کر دی جاتی ہے۔ دیگر ممالک میں بھی یہی رولز ہیں۔ یہ ٹیسٹ WHO.EMRA کی منظوری سے بنایا گیا ہے۔ ڈگری ہولڈر کی قابلیت کو تو ٹیسٹ کرنا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ تو ضروری ہے وگرنہ میرے جیسا کوئی اگر ایگزیکٹ کی ڈگری ہی لے آئے تو۔

ای پیپر دی نیشن