بات تین برس کی نہیں، پندرہ برس پر پھیلی ہوئی ہے۔
نائن الیون کے حوادث دو ہزار دو میں رونما ہوئے، پاکستان بھی اگلے روز ہی سے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف کود گیا،اس حد تک کود گیا کہ کشمیر کی تحریک حریت کو ہم نے اسی طرح دہشت گردی قرار دے ڈالا، جس طرح بھارت اور امریکہ کی ڈکشنریوںمیںا س کی تشریح کی گئی تھی۔جس لمحے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی سے تعبیر کیا، میرے مرشد محترم مجید نظامی ڈیڑھ دو سو ایڈیٹروں کی موجودگی میں احتجاج ہی کرتے رہ گئے، آرمی چیف کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔اور وہ نظامی صاحب کے احتجاج پر ٹس سے مس نہ ہوئے، بھارت نے اس کے بعد بڑے سکون سے ورکنگ باﺅنڈری اور کنٹرول لائن پر خاردار باڑ لگائی، ایسی باڑ صرف انٹرنیشنل بارڈر پر لگائی جا سکتی ہے ، آج پاکستان چاہتا ہے کہ طورخم کے بارڈر پر باڑ لگائے مگر افغان فوج اندھا دھند بمباری اور فائرنگ کی زبان میںمخالفت کرتی ہے۔اس سے دہشت گردی کی جنگ میں نیا موڑا ٓ گیا ہے اور یہ ایک ہمسائے کے ساتھ گرم جنگ میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دشمن بے چہرہ ہے یا بزدل ہے کہ سامنے آ کر وار کرنے کاحوصلہ نہیں رکھتا،ا س نے گولیاں چلائیںاور شاید پوائنٹ بلینک رینج سے چلائیںا ور ہمارے ایک جری میجر کو شہید کر دیا۔یہ حملہ کسی خود کش بمبار نے نہیںکیا،طالبان کے کسی گروپ نے نہیں کیا، بلکہ افغان فوج نے خود کیا۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ الزام عاید کر سکتے ہیں کہ افغان فوج کو بھارت یا امریکہ یا نیٹو کی انگیخت حاصل ہے۔
سو دہشت گردی کے خلاف جنگ اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ میں بدل گئی ہے۔
میں اپنی بات کو صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ تک محدود رکھنا چاہوں گا۔اس کا طبل جنگ جنرل پرویز مشرف نے بجایا، کس سے مشورہ کیا ، کس سے نہیں کیا، اللہ جانے یا ملک سے بھاگ جانے والایہ سابق آرمی چیف جانے ۔ اس جنگ کا آغاز دارالحکومت میں لال مسجد والوں کے ساتھ مڈ بھیڑ سے ہوا، اور پھرا س کا دائرہ پھیلتا چلا گیا، پہلے سوات ا ور مالا کنڈ اس کی زد میں آئے، جنرل پرویز مشرف اپنی اسٹریٹجی کے تحت یہ جنگ لڑتا رہا، امریکہ ڈالر دیتا رہا اور یہ الزام بھی لگاتا رہا کہ پرویز مشرف گڈ اور بیڈ طالبان میں فرق کرتا ہے، یہی وہ وقت تھا جب ہم نے ڈو مور کا لفظ سنا، اس کا مطلب تھا کہ اور مار اماری کرو، اور بلا امتیاز مارو، ان کو بھی مارو جوپاکستان میں خون نہیں بہاتے مگر امریکہ کے بقول افغانستان میں اس کے خلاف لڑ رہے ہیں، جنرل مشرف ڈو مور کے تقاضوں سے نکو نک آ گیا، اس اثناءمیں پاک فوج کی کمان جنرل پرویز کیانی نے سنبھالی اور انہوں نے سوات ا ور مالاکنڈ میں قیام امن کے لئے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا، ان دنوں حکومت میں پیپلز پارٹی تھی، صدر زرداری ا ور وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ ہم نے اس آپریشن کو سویلین اونر شپ دی ، عوامی اور حکومتی تائید کی وجہ سے جنرل کیانی نے سوات آپریشن کو چند ماہ میں مکمل کر لیاا ور یہ معجزہ بھی کر دکھایا کہ بے گھروں کوبھی واپس ان کے گھروں میں آباد کر دکھایا۔جنرل کیانی بتدریج آپریشن کا دائرہ بڑھاتے چلے گئے ا ور جب وہ فوج سے رخصت ہوئے تو فاٹا کا چھیاسی فی صد علاقہ کلیئر ہو چکا تھا اور دہشت گرد باقی کے چودہ فیصد علاقے میں محض تین چار مقامات تک سکڑ گئے تھے۔ مگر جنرل کیانی ایک ورثہ اورچھوڑ گئے تھے ، یہ سوات کا مولوی فضل اللہ تھا جو سوات کے کامیاب فو جی آپریشن میں بچ نکلا تھا۔
یہاں سے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ا و وزیر اعظم نواز شریف کا دور شروع ہوتا ہے۔ ابتدا میں سویلین حکومت دہشت گردوں یا انہیں جو طالبان کہلاتے تھے، کے ساتھ کسی جنگ کے موڈ میںنہیں تھی بلکہ اس کاخیال تھا کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں،ا س مقصد کے لئے وقفے وقفے سے کمیٹیاں بھی بنتی رہیں مگر جنرل راحیل شریف نے ضرب عضب کے نام سے فوجی آپریشن شروع کر دیا، یہ درا صل اسی جنگ کا تسلسل تھا جسے جنرل پرویز مشرف نے چھیڑا تھا اور جو جنرل کیانی کے دور میں بھی جاری رہی۔ضرب عضب کے ابتدائی مراحل میں عوام یا حکومت فوج کے ساتھ نہیں تھے بلکہ سیاستدانوں اور حکمرانوںنے دھرنے کی آڑ میں ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسا رکھے تھے۔اور انہیں اس آپریشن سے کوئی سروکار نہیں تھا مگر آرمی پبلک اسکول کے ڈیڑھ سو کے قریب معصوم بچوں کے خون ناحق پر پوری قوم نے تاثر دیا کہ وہ ضرب عضب کی پشت پر ہے۔اس موقع پر ایک نیشنل ایکشن پلان بھی منظور کیا گیا جو الگ بحث کا متقاضی ہے۔
اس سانحے سے دس ماہ قبل آئی ایس پی ا ٓر کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے لاہور میں میڈیا کے ایک چھوٹے سے گروپ کو بریفنگ دی، جس میں ایک سوال کے جواب میںجنرل موصوف نے بتایا کہ فاٹا کا متاثرہ علاقہ تین یا چار ماہ میں کلیئر کر دیا جائے گا، ان کے جواب کی روشنی میں ٹی وی چینلز نے فوری طور پر ٹکر چلائے اور اگلے روز اخبارات نے ہیڈ لائینیں جمائیں۔ مگر چند ماہ بعد جنرل باجوہ پھر لاہور آئے تو ان کو یاد دلایا گیا کہ ا ٓپ نے تو تین یا چار ماہ کا وعدہ کیا تھا،ا س پر جنرل باجوہ نے نئی لائن لی کہ اب وقت کی اہمیت نہیں ہے،ہماری کوشش ہے کہ اپنی فوج کا نقصان کم سے کم کرایا جائے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے جو بھی وقت در کار ہے، ا سکی بحث میںنہ پڑا جائے۔
قوم بھی آج تک اس بحث میںنہیں پڑی کہ ضرب عضب کے لئے کتنا وقت درکار ہے۔
اب جنرل باجوہ نے نئی لائن لے لی ہے کہ دہشت گردوں کا راستہ روکنے کے لئے بارڈر مینجمنٹ ضروری ہے۔مگر بارڈر مینجمنٹ کرتے ہوئے انگور اڈہ کی چوکی پر کچھ علاقہ افغانستان کو دے دیا گیا تو ملک کے وزیر داخلہ نے بھی کہا کہ پاکستانی سرزمین کاایک انچ بھی کسی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ فوج نے وضاحت کی کہ یہ علاقہ تھا ہی افغانستان کا جس پر بہت پہلے سے ہماراقبضہ تھا۔مگریہ علاقہ واپس دینے کے باوجود افغانستان سے چپقلش جاری رہی تاا ٓنکہ ہمارے فوجی شہید ہو گئے۔اس پر جنرل باجوہ نے ایک اور وضاحت کی کہ طورخم پر جس پھاٹک لگانے پر جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں، یہ پھاٹک فوج ا ور حکومت کے مشورے سے نصب کیا گیا۔اب یہ نہیں بتایا گیا کہ حکومت سے مراد کیا ہے۔وزیرا عظم تو کئی ہفتوں سے صاحب فراش ہیں۔وہ دل کی سرجری کے بعد بحالی صحت کے مرحلے میں ہیں۔ کیا ان سے مشورہ کیا گیا ، یا وزیر داخلہ سے یا وزیر دفاع سے یا وزیر خزانہ سے جنہیں قائم مقام وزیر اعظم سمجھا جا رہا ہے۔وزیر خزانہ اور وزیر دفاع جی ایچ کیو بھی گئے تھے ، ممکن ہے یہ مشاورت اس اجلاس میں کی گئی ہو ،مگر ایک بات واضح ہے کہ ملکی پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر کوئی بحث نہیں کی گئی نہ میڈیا کے ذریعے عوام کو اعتماد یامشاورت میںشریک کیا گیا۔ان تحفظات کے باوجود اگر جنرل باجوہ یہ کہتے ہیں کہ حکومت سے مشاورت ہوئی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ا س پر یقین نہ کیا جائے۔وہ ایک ذمے دار عہدے پر فائز ہیںاور نپی تلی بات کرنے کے عادی ہیں۔
مگر معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے، افغان فوج کو بہانہ مل گیا ہے کہ وہ براہ راست پاکستان پر حملہ کرے، ہماری فوج پر حملہ ہمارے ملک اور ہماری قوم پرحملے کے مترادف ہے ۔
ہم حالت جنگ میں ہیں۔اس جنگ کو پھیلنے سے کس طرح روکا جائے اور اگر یہ جنگ لڑنی ہے تو قوم کو اس کے لئے ذہنی طور پر کیسے تیار کیا جائے، یہ ایک نیا نکتہ ہے جس پرغور کر لینا چاہئے۔ کوئی بھی جنگ حکومت اور فوج عوام سے کٹ کر نہیں لڑ سکتیں۔اکہتر میں ہمیں اس کا بدتریں اور تلخ تجربہ ہو چکا ہے اور ایسے کسی نئے اور بد نصیب تجربے کے ہم متحمل نہیںہو سکتے۔
دہشت گردی کی جنگ کے پندرہویں سال میں اب ایک گرم جنگ ہماری دہلیز پر دستک دے رہی ہے، ہوشیار بھئی ہوشیار !!!