کالاباغ ڈیم ۔ حقیقت کیا ،فسانہ کیا ؟ (20)

زیرِ نظر قسط میں جن تصورات کے بارے میں حقیقی صورت ِ حال واضح کی جائیگی ، وہ درج ذیل ہیں :

کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ اور اس سے ملحقہ علاقے زیر آب آجائینگے۔ کالاباغ ڈیم منصوبہ تیکنیکی اور اقتصادی طور پر قابل عمل نہیں ہے ۔ اس منصوبے کی عمر بہت کم ہوگی کیونکہ منصوبے کے موجودہ ڈیزائن کی وجہ سے مٹی آبی ذخیرے میں آتی رہے گی اور بڑی کم مدت میں مٹی سے بھر جائیگا۔
ایک اور تصوّر جو وادیٔ پشاور میں مقیم لوگوں کے خوف کی بنیاد ہیں ، وہ یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ اور اس سے ملحقّہ علاقے زیر آب آجائینگے۔
کالاباغ ڈیم کے بارے میں بحث جذباتی طور پر اِس قدر شدیدہے کہ بہت سے لوگ جو اُن علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جو مبینہ طور پر ڈیم کی تعمیر کی صورت میں شدید متاثر ہونگے، ایک ایسے انجینئر کے دعووں پر یقین کرتے دکھائی دیتے ہیں جس نے تقریباً اپنی ساری زندگی محکمہ شاہرات میں سڑکیں بناتے گزار دی ۔ خوف کے اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ لوگ ایک ایسے شخص کی رائے پر بھی یقین کر بیٹھتے ہیں جس کی اہلیت اِس بارے میں اُن ماہرین سے کہیں کم ہوتی ہے جو ڈیم کی تعمیر کے باعث کسی خاص علاقے میں پر مرتب ہونیوالے ضرر رساں اثرات کے بارے میں ہمیں بہتر طور پر آگاہ کرسکتے ہیں۔
خوف کے اس عنصر نے کیسے اپنا اثر دکھایا:
کالاباغ کنسلٹنٹس پانچ کمپنیوں پر مشتمل گروپ تھا جس میں بنی اینڈ پارٹنرز ، ہارزا انجینئرنگ ، پریس کارڈیو اینڈ رائیڈر، ایسوسی ایٹڈ کنسلٹنگ انجینئرز اور نیسپاک شامل تھے۔ کالا باغ کنسلٹنٹس اِس بارے میں تحقیقی مطالعات کررہے تھے کہ اگر دریائے سندھ میں 1929ء کی شدت کا سیلاب آجائے تو کالا باغ ڈیم کے آبی ذخیرے میں پانی کی سطح کیا ہوگی۔ یہ مطالعات اِس لحاظ سے ضروری تھے کہ جب کالاباغ ڈیم میں پانی اپنی انتہائی سطح پر ہوگا تو بہت قلیل مدت کیلئے ذخیرہ شدہ پانی کا آخری سرا اکوڑہ خٹک قصبہ کے قریب دریائے کابل کے اندر تک چلا جائیگا ۔ کالاباغ ڈیم پراجیکٹ پر کام کرنیوالے چھوٹی اسامیوں پر تعینات اہلکار آبادی کے قرب و جوار میں واقع پہاڑوں پر اِس مقصد کیلئے نشانات لگا رہے تھے کہ تاریخی لحاظ سے شدید ترین سیلاب آنے کی صورت میں حفاظتی بند کتنی بلندی تک تعمیر کئے جائیں۔ اکوڑہ خٹک کے باشندے تشویش بھری نظروں سے ان اہلکاروں کو چھوٹی پہاڑیوں پر نشانات لگاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ جب انہوں نے ان نشانات کے بارے میں اہلکاروں سے استفسار کیا تو انہیں مبینہ طور پریہ غلط جواب سننے کو ملا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے اِس علاقے میں پانی کی سطح اِن نشانات تک پہنچ جائیگی۔ کوئی شخص اِس بارے میں نہیں جانتا کہ نچلی اسامیوں پر کام کرنیوالے ان اہلکاروں اور مزدوروں نے اِ س علاقے کے لوگوں سے دانستہ طورپر مذاقاً یہ بات کہی تھی یا انہیں خود اس بارے میں درست طور پر علم نہیں تھا۔ تاہم یہ ضرور ہوا کہ اُن کی کہی ہوئی بات نے اتنا خوف و ہراس پیدا کیا کہ اُس علاقے کے لوگ وہاں سے کوسوں دور پنجاب میں تعمیر کئے جانیوالے مستقبل کے اِس منصوبے سے پیدا ہونیوالے مضر اثرات کے بارے میں احتجاج کرنے کیلئے جمع ہو گئے ۔
حقیقی صورت یہ ہے کہ کالا باغ کی جھیل میں پانی بھرنے کا اثر نوشہرہ سے 10میل زیریں جانب تک محدود ہوگا ۔ اِس بارے میں کمپیوٹرکی مدد سے سائنٹیفک سٹڈی کی گئی۔ پاکستان میں بنائے گئے ماڈل پراجیکٹ نے بھی اِس سٹڈی کے نتائج کی توثیق کی ۔ سٹڈی اور فزیکل ماڈل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کالا باغ کے آبی ذخیرے میں 100سال تک مٹّی اور گاد جمع ہوتی رہے ، پھر بھی اگست 1929ء کی شدّت جیسے تاریخی سیلاب کے نتیجے میں نوشہرہ متاثر نہیں ہوگا ۔اِس کمپیوٹر سٹڈی میں تربیلا جھیل کے نتیجے میں حاصل ہونیوالی وہ سہولت شامل نہیں ہے ، جو اب حقیقتاً سیلاب کی شدّت میں کمی لانے کیلئے مؤثر طور پر استعمال میں لائی جاتی ہے۔ ان مطالعات کا چینی ماہر ڈاکٹر لیان ژن (Dr. Lianzhen) اور بعد ازاں امریکی ماہر ڈاکٹر کینیڈی کی سربراہی میں بین الاقوامی ماہرین کے پینل نے از سر نو جائزہ لیا۔ اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل یہ پینل اُس وقت کی صوبہ سرحد کی حکومت نے نامزد کیا تھا۔ اس نامزدگی کیلئے صوبہ سرحد کی حکومت نے 1987ء میں وزارت ِ پانی و بجلی کو درخواست کی تھی ، جسکے نتیجے میں وزارت نے واپڈا کو ہدایت کی کہ بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل کو بھی مطالعات کے از سرِ نو جائزے میں شامل کیا جائے۔ چینی ماہر اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل نے اپنی جائزہ رپورٹ میں مذکورہ مطالعات کے نتائج کی تائید کی۔ بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا کہ اس تحقیقی مطالعہ کے نتائج نئے نہیں ہیں ۔ جب کالا باغ ڈیم کے آبی ذخیرے میں پانی کی سطح کم ہو کر 825فٹ کی بلندی پر ہوگی تو دریائے سندھ کی گھاٹی بالکل اسی طرح کام کریگی جیسا کہ اب کرتی ہے۔ آبی ذخیرے میں پانی کی بھرائی کے وقت جو مٹّی اور گاد جمع ہوگی ، جب پانی اُترنے پر دریا کا پانی اِس گھاٹی میں تیزی کے ساتھ گزرے گا تو جمع ہونے والی مٹّی اور گاد اپنے ساتھ بہا کر لے جائیگا۔ تیزی کے ساتھ گزرتا یہ پانی اُس مٹی کو بھی بہا لے جائیگا جو اِس تنگ گھاٹی کے بالائی علاقوں میں اُس وقت جمع ہوگی جب آبی ذخیرے میں پانی کی سطح اپنی انتہائی بلندی پر ہوگی۔ کالاباغ ڈیم کے بارے میں بعض لوگوں یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ تیکنیکی اور اقتصادی طور پر قابل عمل نہیں ہے۔ اس منصوبے کی عمر بہت کم ہوگی کیونکہ منصوبے کے موجودہ ڈیزائن کی وجہ سے مٹّی آبی ذخیرے میں آتی رہے گی اور یہ بڑی کم مدت میں مٹّی سے بھر جائیگا۔
کالاباغ ڈیم میں تیزی کیساتھ مٹی بھرنے کے بارے میں یہ خوف اور خدشات اس وجہ سے ہیں کہ اِس منصوبے کے ناقدین مختلف رپورٹس اور مطالعات سے اپنے من پسند اقتباسات منتخب کرتے ہیں۔ اگر کنسلٹنٹ کی رپورٹ سے صرف ایک سطر کا حوالہ دیا جائیگا تو لامحالہ اُس سے غلط تاثر قائم ہوگا ۔ اگر کنسلٹنٹ کی رپورٹ کے صفحہ نمبر 4.11کے پیرا گراف 4.55 کا مکمل حوالہ پیش کیا جائے تو صورتحال کی وضاحت ہوجاتی ہے اور اس بارے میں پایا جانیوالا غلط تاثر بھی دور ہوجاتا ہے۔ یہ مکمل پیرا گراف اِ س طرح سے ہے کہ :
’’مٹی کی وجہ سے کالاباغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں واقع ہونیوالی کمی کی شرح ابتدائی طور پر بہت زیادہ نہیں ہوگی کیونکہ تربیلا ڈیم دریائے سندھ کے بالائی علاقوں سے آنے والی مٹی کی زیادہ تر مقدار روک لے گا۔ ڈیم میں پانی کی سطح 50 دنوں کیلئے 825فٹ کی سطح پر ہوگی۔ (بجلی پیدا کرنے کیلئے آبی ذخیرے میں یہ سب سے نچلی سطح ہوگی) اِسی دوران ڈیم سے پانی کے ساتھ مٹی کو باہر خارج کیا جائیگا۔ اس عمل کے ذریعے اِس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ کالاباغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں پیدا ہونیوالی کمی کی شرح تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے میں واقع ہونیوالی موجودہ کمی کی شرح کے مقابلے میں تھوڑی ہو۔‘‘
بین الاقوامی ماہرین جنہوں نے کالاباغ ڈیم کا ڈیزائن تیار کیا ہے وہ یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کیلئے دریائے سندھ ہر 90 میل طویل اور تنگ پہاڑی گھاٹی ہونے کی وجہ سے نسبتاً ایک کشادہ علاقے میں واقع وسیع آبی ذخیرے کے مقابلے میں اِس ڈیم سے مٹی خارج کرنے کا مؤثر اور فعال نظام تعمیر کرنے کیلئے ایک بے مثال سہولت موجود ہے۔ وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کے منفرد محل و قوع کی بدولت ڈیم سے مٹی باہر نکالنے کے بہترین امکانات موجود ہیں ۔ کالاباغ ڈیم کا Orifice سپل وے پر آبی ذخیرے میں پانی کی کم سے کم سطح یعنی 825فٹ سے بھی 40فٹ نیچے واقع ہے۔ ڈیم میں پانی جمع کرنے کے قواعد و ضوابط میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ جون کے پورے مہینے اور جولائی کی 20 تاریخ تک آبی ذخیرے میں پانی کی کم سے کم سطح 825 فٹ پر برقرار رکھی جائیگی۔ جسکے باعث یہ سہولت حاصل رہے گی کہ اپنے ساتھ مٹی کی بہت زیادہ مقدار لانے والے سیلاب کو ڈیم سے براہ راست گزار ا جاسکے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ باقی دنوں میں آبی ذخیرے میں جو مٹی جمع ہوگی اُسے بھی خارج کیا جاسکے گا۔ طویل اورتنگ گھاٹی پر مشتمل آبی ذخیرہ سیلاب کے موسم میں پانی کی زیادہ مقدار کیساتھ مٹی اور گاد خارج کرنے کیلئے موزوں ہوتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کے یہ خدو خال اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں مٹی کی بہت کم مقدار جمع ہوگی اور اِس وجہ سے کالاباغ کے آبی ذخیرے کی عمر طویل ہوگی ۔ یہ نتائج تفصیلی مطالعات کی بنیاد پر اخذ کئے گئے ہیں اور اِ س حوالے سے انجینئرنگ کی جدید تکنیک بھی استعمال کی گئی ہیں جبکہ بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہرین نے ان نتائج کو درست تسلیم کرتے ہوئے اُنکی توثیق کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن