ایک مثل ہے ”راستی موجب رضائے خدا است“ اللہ سچائی سے خوش ہوتا ہے لیکن راست سوچ اور صالح عمل بے شک رب العزت کی عطا ہے۔ رب جسے چاہتا ہے رستہ دکھاتا ہے جس سے چاہتا ہے آنکھوں کے ہوتے ہوئے بینائی چھین لیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کون لوگ چہروں پر لبادہ اوڑھے اپنے لفظوں کو (خدا نخواستہ) رب کا فرمان کہہ کر عوام الناس کو ورغلاتے ہیں۔ اقراءپر ایمان لانے والوں سے جب سبق دور کردیا جاتا ہے اور زبان کو علم کی راہ سے ہٹا کر فقط نوالہ جگالی کرکے حلق تک اتارنے کا اعضاءبنا دیا جاتا ہے، تو ایسی قوم کسی طرح بھی نفسانی جسم سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ عام آدمی کےلئے اتارا گیا دین عام آدمی کی فہم سے بالا بنا دینا دراصل غلاموں کی فوج تیار کرنے کے مترادف ہے۔ احساس، مثبت سوچ و فکر اور روح کی پاکیزگی علم و ادراک کی ریاضتیں ہیں۔ بدقسمتی سے پستی میں گرے اس معاشرے میں صرف لفظ بولے جاتے ہیں۔ وہ لفظ فقرے باتیں جو اپنے اندر نہ تقدیس رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی کی حیا و نسوانیت کا احساس۔ خدا جانے ہم کس دنیا کے لوگ ہیں جن کے دامن میں نہ اخلاص ہے نہ غلط کو غلط کہنے کی جرا¿ت، ایسے اخلاقی دیوالیہ، قابل نفرت غلیظ گھٹیا سماج پر ان حرص پرست حکمرانوں سے بڑا، بھلا اور کیاعذاب ہوسکتا ہے۔حیرت انگیز بات ہے کہ وہ لوگ جو خود کو مینارئہ اصلاح اور دین کے رکھوالے سمجھتے ہیں، انہیں شاید یاد ہی نہیں کہ دین کی حفاظت وہ خود (اللہ) بہتر کرسکتا ہے۔ عورت کے بطن سے ”پیدا “ ہونے والے ان عورت دشمنوں کو کیا معلوم کہ دردِ زہ سہنے والی نے جب اولاد نرینہ کی دعا کی ہوگی تو اپنے سر کی چادر مانگی ہوگی۔ برہنہ سر جوتیوں کی بوچھاڑ کا اُس کو گماں تک نہ آیا ہوگا۔ لیکن کیا کیجئے اِس آپادھاپ معاشرے میں پاگل بھینسوں کی اک دوڑ لگی ہے جس میں میڈیا کسی بدمست ”ریڈبل“ سے کم نہیں اور اسکے تماشے سے پیسے گراہنے والے پیمرا کے پاس اخلاقی کوڈ نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔
کیا سوچی سمجھی سکیمیں ہیں کہ ملک کی معیشت کا تو جنازہ نکالا ہی تھا، اخلاقی دیوالیہ پن پر ہر ٹی وی چینل مارننگ شو، رمضان ٹرانسمیشن اور نیوز بلیٹن میں خوب ڈگڈگی بجاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے بندریا کا تماشا دکھانے والا آواز کستا ہے، پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔ اب کس سے منصفی چاہیں کہ ٹی وی چینلز صرف گرما گرم خبر کے چکر میں اخلاق و حیا سے گری ہوئی بات بھی آن ایئر کرکے اپنی ریٹنگ چیک کر رہے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں حافظ حمداللہ نے جو ماروی سرمد کے ساتھ ٹی وی پروگرام میں زبان اور انداز اختیار کیا اور جس طرح وہ جھپٹنے کی کوشش کررہے تھے، وہ صرف ایک شخص کی سعی نہیں بلکہ اک فاسق و فاسد سوچ کا بہاﺅ اور تناﺅ تھا۔ اس معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ سرعام کسی عورت کی شلوار اتارنے کے الفاظ پر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ کسی عورت کو فاحشہ قرار دے کر اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش پر کسی منصف نے ازخود نوٹس نہیں لیا۔ ملک میں انسانی حقوق اور نسوانی حقوق کی کسی این جی او نے کتبے اٹھا کر چوک میں کوئی آواز بلند نہیں کی۔ کسی سیاسی جماعت کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ تو پھر یہ روز روز کے دھرنے کن بے انصافیوں پر ہیں؟ یہاں صبح و شام حوروں کے خواب دکھانے والوں نے مرد کو صرف اور صرف ایک جسم بنا کر عورت کو استعمال کی چیز قرار دے رکھا ہے۔ شاید کسی مہذب معاشرے میں ایسی غلیظ سوچ اور اخلاقی طور پر پست شخص کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا کہ مدتوں یاد رکھا جاتا، لیکن کیا کیجئے کہ عورت سے لمحہ لمحہ جینے کا حق چھیننے والی سوچ نے عورت سے آزادانہ زندگی بسر کرنے کا خیال تک چھین لیا ہے۔ وہ جو آیات کو اپنے مقصد کیلئے اپنے من چاہے معنی پہناتے ہیں، آیات کے سیاق و سباق سے ہٹ کر بات کرتے ہیں، وہی عورت کو گالی دیکر اپنے سفلی جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔ عورت کے جسمانی اعضاءکو حرص و ہوس سے کھا جانے والی نظروں سے دیکھنا وہ اپنا اولین حق سمجھتے ہیں۔ خدا جانے ہماری زندگیوں میں وہ دن کب آئےگا جب ضیاءالحق کی باقیات سے نجات پائیں گے۔ یہ انتہا پسند شدید ذہنی بیمار سوچ اور عورت سے دشمنی ضیاءالحق ہی کی وراثت ہے۔ اِن کا بس چلے تو عورت کو جانوروں کی طرح نوچ کھائیں۔ حافظ حمداللہ کو عوامی نمائندگی کے حق میں آخر اپنے اردگرد ظلم و استبداد کیوں نظر نہیں آتے، اُنکے علاقے میں توعورت بے چاری کیا معصوم لڑکوں کی عزت و عصمت محفوظ نہیں۔ اس پر کبھی انکے لب وا نہیں ہوئے، آخر کیوں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک پسند کی شادی پرجرگے بٹھا کر زندہ جلا دینا کوئی جرم نہیں، بدکار باپ یا بھائی کے گناہ پر جانوروں کی طرح ہانک دیئے جانا عورت کا نصیب ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کرنا عین عبادت ہے۔ مردانگی تو اِنکے نزدیک یہی ہے کہ عورت کے کپڑے اتارو بیچ چوراہے کے پتھرمارو، تماشا دیکھو، ہاتھ پہ ہاتھ مارو اور کل اگلا دن، یعنی رات گئی بات گئی۔
ہمارے نزدیک ماروی سرمد بھی صرف ایک خاتون نہیں بلکہ امید اور غلامی کی پامالی کی ایک سوچ ہے۔ عورت کی عزت نفس اور جہالت کے اندھیروں سے لڑنے کا جتن، معاشرتی تبدیلی کی جدوجہد، کاش عورت کو تصرف کی شے سمجھنے والے جان لیں کہ عورت صرف ایک صنف نہیں، ایک مکمل انسان ہے اور یہ فقط مرد کی مرضی اور اس کی نفسانی رضا پر استعمال کےلئے پیدا نہیں ہوئی۔ افزائش نسل ایک پاکیزہ باحیا عمل ہے جس کےلئے یقینا حافظ صاحب کی والدہ بھی تمام لوازمات کے ساتھ اس عمل سے گزری ہوں گی، خدا کی آیتیں بیچنے والوں سے وہ جسم بیچنے والی عورتیں بہتر ہیں جو کسی ایک جیب کو خالی کرتی ہیں، پوری قوم اور اسکی آنےوالی نسلوں کو خالی کنستر نہیں بنا دیتیں۔