دال مہنگی ہے تو عوام چکن کھائیں چین سے سلک سمگل نہیں کرتا:اسحاق ڈار کا شیخ رشید کو جواب

اسلام آباد (خصوصی نمائندہ+ آئی این پی+ این این آئی) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایک روپے کا بھی بیرونی اثاثہ کوئی ثابت کر دے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدونگا، فرانزک آڈٹ کیلئے تیار ہوں مگر پھر سب کا فرانزک آڈٹ ہو گا، اگر دال ماش 260 روپے کلو ہے تو عوام چکن کھائیں وہ 200 روپے کلو ہے۔ ملکی قرضہ 3 ہزار 10 ارب سے 15 ہزار ارب تک مشرف اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں لے گئی ہیں، قرضوں کا حساب ہم سے نہیں‘ پیپلزپارٹی اور پرویز مشرف سے لیا جائے۔ ضرب عضب پر 145 ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں اور مزید 100 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وہ قومی اسمبلی میں بحث پر بحث سمیٹ رہے تھے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں بجٹ پر ارکان قومی اسمبلی، غلام سرور خان، شیخ رشید احمد، شیر اکبر خان، شیریں مزاری، امجد نیازی و دیگر نے بحث میں حصہ لیا۔ بحث کے اختتام پر وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ 3 سال قبل سے آج ہمارے ترقیاتی اور غیرترقیاتی بجٹ میں بہتری ہے۔ جون 2013ء میں 12ہزار ارب روپے قرضہ تھا اور 99ء میں 3 ہزار ارب روپے قرضہ تھا، ٹوٹل قرضوں کی شرح 63.8 فیصد تک لائیں گے۔ صدر پاکستان اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، ان پر تنقید درست نہیں، 34 ادارے سیکرٹ سروس فنڈ استعمال کرتے تھے اور اقتدار میں آتے ہی 32 اداروں کے فنڈز بند کردئیے ہیں، سوائے انٹیلی جنس اداروں کے کسی کو بھی سیکرٹ سروس فنڈ جاری نہیں کئے جاتے، 3 ہزار ارب سے 15 ہزارب ارب قرضہ ہم لیکر نہیں آئے، مشرف اور پی پی کی حکومتوں نے عوام پر قرضوں کا بوجھ ڈالا، قرضوں پر شرح سود پر کوئی بھی رعائیت نہیں دیتا چاہے اندرونی قرضہ جات ہو یا بیرونی، پاکستان میں اڑھائی کروڑ افراد کو چھوٹے قرضوں کی ضرورت ہے اور پاکستان میں اس ضمن میں کمپنی بنائی جا رہی ہے جو چھوٹے قرضے فراہم کرے گی، فاٹا کیلئے 42 ارب 30 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جس میں 22 ارب روپے رکھے گئے ہیں، 245 ارب روپے رکھے گئے ہیں، ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ وزیراعظم کی آمد پر ہو گا، مجھ پر تنقید کرنے والے میرا ایک روپے کے بھی بیرونی اثاثے ثابت کر دیں تو میں استعفیٰ دیدونگا۔شیخ رشید کو جواب دیتے ہوئے کہا چین سے سلک کی سمگلنگ نہیں کرتا، میں اس ملک کی خدمت کر کے ادھار چکا رہا ہوں، مجھ پر ذاتی حملے کرنے والوں کو میں عدالت میں لیکر جائوں گا، شیخ رشید کا بھی فرانزک آڈٹ کرایا جائے جو غلط نکلے فیس اسی سے لی جائے۔ صوبوں کی بقایا رقم این ایف سی کے فارمولہ کے تحت صوبوں کو مل جائیگی، صوبوں کا حق ان کو ملے گا۔ تحریک انصاف کے غلام سرور خان نے کہا گذشتہ 3 برسوں میں جتنے قرضے بڑھے گذشتہ 47 برسوں میں نہیں بڑھے،حکومت پرائیویٹائزیشن پالیسی پر نظرثانی کرے۔ بجٹ میں ای او بی آئی کے پنشنرز کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا، سی پیک میں توانائی کے منصوبوں میں گلگلت بلتستان،کے پی کے میں ہائیڈرو پروجکیٹ کو بھی شامل کیا جائے۔ شیخ رشید احمد نے کہا ملک میں ججز کی تعداد کم ہے، پاکستان کی تاریخ میں سب سے مہنگی تصویریں صدر مملکت نے کھچوائی،ملک میں ہر جگہ میڈیا میڈیا کھیلا جارہاہے۔ جتنے پیسے بجلی بچائو کی پبلشی پر اخراجات لئے جاتے ہیں ان سے 3سے 4گائوں میں بجلی دی جاسکتی ہے۔ ایوان میں کبھی نہیں سنا یہ غریب کا بجٹ نہیں،14ہزار سے ایک مہینہ گائے بھی نہیں پالی جاسکتی۔ بجٹ بنانے والے باہر کاروبار کر رہے ہیں تو انہیں اسمبلی ممبران کی تنخواہیں بڑھاتے’موت‘ پڑتی ہے،کرپشن ختم کرنے کا یہ بھی طریقہ ہے ممبر اسمبلی کو قابل عزت تنخواہ دو۔جماعت اسلامی کے شیر اکبر خان نے کہا بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور آئندہ بیرونی قرضے نہ لینے کیلئے ایک واضح پالیسی مرتب کرے۔ایم کیو ایم کی ڈاکٹر فوزیہ نے کہا چھوٹے ڈیموں کی ہمیشہ بات کی گئی مگر حقیقت میں اس پر کبھی کام شروع نہیں کیا گیا،کراچی کیلئے زیادہ منصوبے رکھے جائیں۔تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے کہا اس بجٹ میں جتنا سود نظر آیا وہ کبھی کسی بجٹ میں نظر نہیں آیا۔ ایوان صدر کیلئے بیرونی ممالک وفود بھجوانے کیلئے 28کروڑ سے زائد فنڈز رکھے گئے ہیں، سب جانتے ہیں صدر مملکت کا اب کتنا کردار رہ گیا ہے۔ ریلوے کیلئے 700ملین سود کی ادائیگی کیلئے مانگا جارہا ہے۔ صدر مملکت وفاق کی علامت ہوتے ہیں،ان کا ملک کے مسائل کے حل میں کردار بڑھنے کے بجائے ان کے اخراجات بڑھ رہے ہیں،صدر مملکت کی سفری سہولت کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز خرچ کیے جا رہے ہیں، صدر مملکت کے دورے بڑھائے جارہے ہیں مگر ہمارے ہمسائیہ ممالک سے تعلقات بہتر ہونے کی بجائے خراب ہورہے ہیں، صدر مملکت کی جانب سے اربوں روپے کے تحفے بھجوائے جا رہے ہیں، ہمیں ان کی تفصیل فراہم کی جائے۔ تحریک انصاف کے امجد خان نیازی نے کہا پرائیویٹ کورئیر سروسز دن بدن بہتر ہوتی جارہی ہیں،وہ منافع کما رہے ہیں مگر پاکستان پوسٹ وسائل ہونے کے باوجود نقصان میں چل رہا ہے،جس کیلئے پیسے مانگے گئے ہیں،وزرات خارجہ کے اتنے اخراجات ہیں مگر ان کی کارکردگی صفر ہے، ریلوے کیلئے پیسے مانگے ہیں ان پیسوں سے مسافر کوچز میں اضافہ کیا جائے۔ جب تک ہم اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم نہیں کریں گے،ہماری معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ شاہد رحمانی نے کہا ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا تو گریڈ19اور 20کے ملازمین کے برابر کردی جائے۔ اے این این کے مطابق اسحاق ڈار نے کہا ہم نے گزشتہ تین سال کے عر صے میں ترقیاتی بجٹ میں دوگنا اضافہ کیا جبکہ مالیاتی خسارہ نصف رہ گیا ہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے خسارے میں جاسکتے ہیں، رواں مالی سال میں 3 صوبوں نے خسارے کے بجٹ پیش کئے ہیں اور یہ غیر قانونی نہیں‘ کشکول کی دیگ موجودہ حکومت نے نہیں بنائی۔ انہوں نے کہا وہ شیخ رشید کو چیلنج کرتے ہیں بیرون ملک ان کا ایک روپیہ بھی ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دیں گے۔ افغانستان سے معاملات پر حکومت باخبر ہے، طورخم بارڈر پر اب تک جو بھی ہوا ہے وہ اچھا شگون نہیں۔ اس ایوان کو دھرنوں یا سڑکوں کی سیاست میں نہ الجھائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہئے ،صرف خبر بنانے کے لئے فضول باتیں کی جاتی ہیں۔ معزز رکن اپنے حلقے میں لوگوں کو چکن کھانے کا مشورہ دیں، چکن کی اوسط قیمت 200 روپے فی کلو ہے ، ٹی سی پی کو دال درآمد کرنے کی ہدایت کی ہے ۔قومی اسمبلی میں 12ویں روز بھی کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کارروائی 36 منٹ تک معطل رہی۔ تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری کورم کی نشاندہی کے لئے کھڑی ہوئیں تو سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ آپ خود ہی مائیک کھو ل لیا کریں ، مجھے پتہ ہے کورم کی نشاندہی آپ نے ہی کرنی ہے اس پر شیریں مزاری نے کورم کی نشاندہی کردی اس وقت ایوان میں صرف 30 ارکان موجود تھے۔ سپیکر نے اجلاس کورم پورا ہونے تک ملتوی کر دیا۔ قومی اسمبلی نے 104کھرب 42 ارب 35 کروڑ 12 لاکھ 23 ہزار کے لازمی اخراجات اور مختلف وزارتوں اور ڈویژن کے بارہ کھرب 27ارب‘ 24کروڑ 35لاکھ 6 ہزار 200روپے کے 75مطالبات زر کی کثرت رائے سے منظوری دیدی۔قومی اسمبلی نے 860 ارب کے دفاعی بجٹ کی بھی اتفاق رائے سے منظوری دی۔ دفاعی بجٹ پر کٹوتی کی کوئی تحریک پیش نہیں کئی گئی تھی۔ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے لازمی اخراجات کی تفصیلات پیش کیں ، اپوزیشن نے ایوان صدر، پوسٹ آفس اور امور خارجہ کے اخراجات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اخراجات میں اندرونی قرضہ جات کی ضمن میں83 کھرب 88 ارب 29 کروڑ روپے ،ملکی قرضوں پر12 کھرب 47 ارب روپے کی سود کی ادائیگی کی منظوری دی گئی ہے، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 4 کھرب 43 ارب 80 کروڑ روپے اور بیرونی قرضوں پر ایک کھرب 13 ارب روپے کے سود کی ادائیگی کی منطوری دی گئی۔ قلیل المیعاد غیر ملکی قرضوں کی واپسی کیلئے ایک کھرب 41 ارب 37 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی۔ قومی اسمبلی کیلئے ایک ارب 47 کروڑ 92 لاکھ روپے اورسینٹ کیلئے ایک ارب9 کروڑ 2 لاکھ روپے کا بجٹ منظور کیا گیا۔ سپریم کورٹ کیلئے ایک ارب 74 کروڑ 74 لاکھ روپے اوراسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے46 کروڑ 96 لاکھ روپے کا بجٹ منظورکیا گیا۔ انتخابات کے انعقاد کیلئے2 ارب 25 کروڑ 33 لاکھ روپے کا بجٹ ،وفاق اور صوبوں کے مابین امدادی رقوم کی تقسیم کیلئے13 ارب کا بجٹ اورریلوے کے لازمی اخراجات کیلئے ایک ارب روپے کا بجٹ منظورکیا گیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی دوپہر 2 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...