طورخم (اے ایف پی+ ایجنسیاں) پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی اور خونریز جھڑپوں کے باعث 5 روز بند رہنے والی طورخم سرحد ہر قسم کی آمدورفت کیلئے کھول دی گئی ہے تاہم دونوں جانب آمدورفت کیلئے ویزا اور پاسپورٹ دکھانا لازمی ہوگا۔ پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر آنے والے افغان باشندوں کے پاکستان میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مشرقی افغانستان میں بارڈر پولیس چیف محمد ایوب حسین خیل نے بتایا کہ اے ایف پی کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد طورخم سرحد مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بجے کھولی گئی ہے۔ لوگ طبی مقاصد کیلئے طورخم سرحد کے آر پار جاتے تھے مگر اب ویزا اور پاسپورٹ رکھنے والے ہی آجاسکیں گے۔ ایک پاکستانی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ گیٹ کی تعمیر کا کام بحال ہوگیا ہے۔ ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطاء اللہ خوگیان اور پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی طورخم سرحد کھلنے کی تصدیق کی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ٹوئیٹر پر کہا ہے کہ افغانستان کی طرف سے آنے والے افراد کے پاس پاسپورٹ اور ویزا ہونا ضروری ہے۔ طورخم بارڈر کے کھلتے ہی سرحد کے دونوں جانب وطن واپسی کے منتظر افراد کی لمبی قطاریں لگ گئیں، پاکستان افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت تجارتی سرگرمیاں اور شہریوں کی آمدورفت بحال ہوگئی۔ اس موقع پر دونوں فورسز کے درمیان تحفے تحائف کا تبادلہ بھی کیا گیا، پاکستان اور افغانستان کے حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کشیدگی کے دوران شہید ہونے والے میجر علی جواد چنگیزی کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث علاقے میں نافذ کیا گیا کرفیو بھی ختم کردیا گیا جس کے بعد لنڈی کوتل کے بازار کھل گئے، معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہو گئے ۔طورخم میں مامور پولیٹکل انتظامیہ خیبر ایجنسی کے تحصیل دار غنچہ گل نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی اہلکاروں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کامیاب رہے جس کے بعد سرحد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طورخم بارڈر پر پاکستانی سائیڈ پر گیٹ کی تعمیر کا کام جاری ہے، سرحد کی دونوں جانب مسافروں کی آمدورفت کا سلسلہ بھی شروع ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث علاقے میں نافذ کیا گیا کرفیو بھی ختم کردیا گیا۔ واضح رہے کہ طورخم بارڈر پر گیٹ لگانے کے معاملے پر گزشتہ اتوار کو پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان کے میجر علی جواد چنگیزی شہید جب کہ 10 اہلکاروں سمیت 16 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ سرحد کھلنے کے بعد اشیاء خوردونوش، سیمنٹ، سریا اور دیگر اشیاء لے کر افغانستان جانے والے ٹرکوں کو جانے کی اجازت دے دی گئی ہے، ٹرکوں کے پرمٹ چیک کیے جارہے ہیں، کاغذات بھی چیک کیے جارہے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا صرف قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو داخلے کی اجازت دی جائیگی۔ سکیورٹی حکام کے مطابق پاک افغان سرحد طورخم یومیہ اوسطاً 25 ہزار سے زائد افراد بغیر سفری دستاویزات کے آمد ورفت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ سرحد کھولنے سے قبل دونوں ممالک کے درمیان فلیگ میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میٹنگ کے دوران پاکستان اور افغانستان کی فورسز میں تحائف اور پھولوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ پولیٹکل انتظامیہ کے مطابق طورخم پر نئے تعمیر ہونے والے گیٹ کو شہید میجر علی جواد چنگیزی کے نام سے منسوب کیا جائیگا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے کہا ہے کہ پاکستان سرحدی انتظام کو نظرانداز نہیں کرسکتا، افغانستان کا بارڈر مینجمنٹ کیخلاف ردعمل سمجھ سے بالاتر ہے۔ دو سالہ آپریشن ضرب عضب اور موثر سرحدی انتظام کے ذریعے سرحدی علاقوں میں مثبت نتائج حاصل کئے گئے ہیں، پاکستان افغان بارڈر کے تمام اہم کراسنگ پوائنٹس پر گیٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے، سرحد پر گیٹس کی تعمیر کے حوالے سے پاکستان عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کر رہا۔ امریکہ اور کینیڈا بھی وہ دوستانہ ماحول میں سرحدی امور کو چلا رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان سرحدی امور پر اختلافات کو طے کرنے کیلئے کسی تیسری قوت کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے، ہم اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعے خود حل کریں گے۔ افغان عوام ہمارے بھائی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہوں، افغان مہاجرین باعزت انداز میں واپس چلے جائیں تاکہ پاکستان میں امن و امان کے مسائل بھی کم ہو جائیں۔ افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
طورخم بارڈر
اسلام آباد (نیٹ نیوز+ بی بی سی) طورخم کے سرحدی راستے پر پاکستان اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے درمیان حالیہ تنازعہ کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اگر کوئی بھی ملک آپ پر حملہ کرے گا تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔ بی بی سی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ طورخم پرگیٹ کی تعمیر جاری رہے گی کیونکہ اس گیٹ کی تعمیر سے نہ تو پاکستان افغانستان کے ساتھ کسی دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور نہ کسی بین الاقوامی قانون کے منافی کام کر رہا ہے۔ دوسری جانب طورخم کا راستہ کھلنے پر افغانستان میں لوگ بہت خوش ہیں، امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک اس حوالے سے مزید کشیدگی کو ہوا نہیں دیں گے۔ بی بی سی کے مطابق افغانستان کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ افغان وفد پاکستان جائے گا اور کوشش کرے گا کہ دونوں ممالک کے درمیان طورخم پر آئندہ کسی قسم کی کشیدگی نہ ہو۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ جب تک افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر ’بارڈر مینیجمنٹ‘ کا کوئی نظام قائم نہیں ہو جاتا،اس وقت تک دہتشگردی، انتہا پسندی اور سمگلنگ جیسے مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ ’سرحد پر دونوں جانب سے آمد و رفت دستاویزات کی مدد سے ہونی چاہیے۔ روزانہ چالیس سے پچاس ہزار افراد اس راستے کسی رکاوٹ یا پوچھ گچھ کے بغیر آ جا رہے ہیں، اس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ہم نے افغانستان کو مئی میں بتا دیا تھا کہ یکم جون سے کسی کو دستاویزات کے بغیر سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ افغانستان چاہتا ہے کہ پاکستان سرحد پر گیٹ کی تعمیر روک دے لیکن ہم گیٹ اپنے علاقے میں بنا رہے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ گیٹ پاکستان اپنے علاقے میں سرحد سے تیس پینتیس میٹر اندر بنایا جا رہا ہے، پاکستان اس کی تعمیر جاری رکھے گا، اسے دونوں ممالک کے درمیان آمدورفت کے لیے کھول دیا جائے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر پاکستان نے افغانستان کو بتا دیا تھا کہ وہ سرحد پر گیٹ تعمیر کرنے جا رہا ہے تو پھر سرحد پر اتنی کشیدگی اور فائرنگ کا تبادلہ کیوں ہوا، تو سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کو 2014 میں بتا دیا تھا کہ وہ طورخم پر نئی سہولیات متعارف کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے، لیکن افغانستان نے ہماری تجویز کا باقاعدہ جواب نہیں دیا۔ ان کی جانب سے جو تحفظات سامنے آئے تھے، انھیں منصوبے میں شامل کر لیا گیا تھا۔ سرتاج عزیز کے بقول سرحد پر دستاویزات کی پابندی جیسے اقدامات دونوں ممالک کے حق میں ہیں کیونکہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان سے لوگ بلا روک ٹوک افغانستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایسا نظام ضروری ہے کیونکہ جب تک سرحد پر انتظامات نہیں کیے جائیں گے، سہولیات نہیں فراہم کی جائیں گی، ہمارے سکیورٹی خدشات قائم رہیں گے اور افغانستان کے خدشات بھی موجود رہیں گے۔ جب سرتاج عزیز کی توجہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے اس بیان کی جانب دلائی گئی کہ پاکستان بھارت کو افغانستان تک زمینی راستے سے رسائی نہیں دینا چاہتا تو ان کا کہنا تھا کہ مسائل تو اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب بھارت مذاکرات کے لیے رضامند ہو، مذاکرات جب ہی ہو سکتے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے ہوں۔