لاہور (فرخ سعید خواجہ) وزیراعظم محمد نوازشریف کو انکے عہدے سے ہٹانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی شدید ترین خواہش کے باوجود انکے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں جس کے ذریعے وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کرسکیں۔ بعض اپوزیشن رہنما اور انکے سرپرستوں نے مسلم لیگ (ن) کے اندر سے تبدیلی لانے کی تجویز کو کامیاب بنانے کیلئے کوششیں شروع کرنے سے پہلے ہی اس تجویز کی کامیابی پر شکوک و شبہات کا اظہار کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) میں موجود ق لیگ سے آنے والوں کی اکثریت سمیت اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر دیگر ارکان قومی اسمبلی کو نوازشریف کیخلاف کھڑا کرنے کی تجویز تھی لیکن سوال یہ تھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ سو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے قوی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کے دوران تجویز پیش کی کہ وزیراعظم نوازشریف کی جگہ میاں شہبازشریف یا چودھری نثار علی خان کو لایا جائے۔ بعد ازاں انہوں نے ان ناموں میں اسحاق ڈار کا نام کا بھی اضافہ کردیا، تاہم نجی محفلوں میں شیخ رشید اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ میاں شہبازشریف اپنے بڑے بھائی کے سامنے کبھی کھڑے نہیں ہوں گے۔ انکا کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے بھی شہباز شریف پر بھروسہ کر کے مار کھائی تھی۔ اب بھی ان تِلوں میں تیل نہیں۔ جہاں تک نوازشریف کو دبائو ڈال کر مستعفی کرانے کا تعلق ہے تو جو لوگ نوازشریف کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ نوازشریف دبائو میں آ کر وزیراعظم کا عہدہ ہرگز نہیں چھوڑیں گے، البتہ انہیں آئینی طریقے سے ہٹایا جاسکے تو الگ بات ہے۔ اس تمام صورتحال پر مختلف اپوزیشن جماعتوں سے آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے اپنی جماعتوں کے اعلیٰ سطح کے اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے بعض مسلم لیگی ممبران قومی اسمبلی ناراض ہو کر باہر جانے کے عمل نے مسلم لیگ (ن) کے اندر سراسیمگی پیدا کردی ہے۔ ناراض ارکان کے سرخیل سے سید نجف سیال سامنے آئے ہیں جو 2008ء کی پنجاب اسمبلی میں (ق) لیگ کے فارورڈ بلاک میں شامل تھے، انہیں مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی ٹکٹ دی۔ تاہم نجف سیال ہوں یا دیگر ناراض گروپ کا کوئی ارکان میں سے کوئی بھی نوازشریف کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے ارکان اکھٹے کرنے کی سکت نہیں رکھتا کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی کو ملا کر وزیراعظم نوازشریف کیخلاف تحریک عدم اعتماد لاسکیں۔
خواہش کے باوجود اپوزیشن کے پاس نوازشریف کو ہٹانے کا کوئی راستہ نہیں
Jun 19, 2016