اس وقت تک نہ تو گورچانی سرداروں کی جانب سے دریشک سرداروں سے اتحاد کا عندیہ دیا گیا ہے اور نہ ہی دریشک سرداروں نے گورچانی سرداروں سے اتحاد کا کوئی امکان ظاہر کیاہے لیکن پتہ نہیں کیوں اس حوالے سیاسی ماحول خاصا گرم ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی پوزیشن میں حلقہ این اے 174اور صوبائی حلقوں پی پی 247,48میں گورچانی ¾ دریشک اور لغاری گروپوں میں سے کوئی بھی انفرادی حیثیت میں 2018کے الیکشن میں سٹینڈ نہیں لے سکتا۔ اور اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو تینوں گروپ بھی اس حد تک تو متفق ہیں کہ جیت کے حدف کے لئے چاہتے یا نا چاہتے ہوئے بھی ”یا کسی کو اپنا بنانا پڑے گا ¾ یا کسی کا ہونا پڑے گا “۔ اس ”اپنا بنانے ¾ یا کسی کا ہونے “ کے فارمولے پر تینوں ہی گروپ یقیناسوچ بچار میں ضرور ہیں لیکن ابھی شاید کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ۔ کیونکہ اگر ”گورچانی دریشک اتحاد “ پر کام ہورہاہوتا تو حالیہ صوبائی بجٹ اجلاس جس کی صدارت قائمقام سپیکر پنجاب اسمبلی سردار شیر علی خان گورچانی کررہے تھے کہ موقع پر پی ٹی آئی کے ایم پی اے سردار علی رضا خان دریشک غیر ضروری جارحانہ رویہ اختیار نہ کرتے ¾ بجٹ اجلاس میں سردار علی رضا خان دریشک کی باڈی لینگوئج سے ہی اندازہ کیا جارہاتھا کہ وہ محض تقریر ہی کی حدتک جارحانہ رویہ اختیار نہیں کررہے بلکہ وہ کچھ ”اور “کرنے کے لئے بھی ذہنی طورپر تیار تھے ¾ اس ”اور“ میں ان کی کیا منطق کارفرما تھی یہ تو وہ خود ہی ”آشکار “ کر سکتے ہیں ۔ تاہم ”خدا جب حسن دیتا ہے ¾ نزاکت آہی جاتی ہے “کی عملی تفسیر قائمقام سپیکر سردار شیر علی خان گورچانی نے ”بلوچکی “ دکھانے کے بجائے بردباری ¾ تحمل اور برداشت کا عملی وتاریخی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کے آخری بجٹ اجلاس کو متنازعہ ہونے سے بچالیا ۔ ایک بات تو طے ہے کہ اب کی بار دریشک سرداروں نے گورچانی سرداروں سے اتحاد کیا تو یہ اتحاد مقامی سطح تک یا الیکشن کی حدتک تو نہیں ہوگا اس اتحاد کی بیل تب ہی مونڈھے چڑھے گی جب وہ ن لیگ جوائن کریں گے ۔ اس وقت دریشک گروپ کی پوزیشن کچھ یوں ہے کہ سردار نصراللہ خان دریشک پی پی 249سے آزاد حیثیت سے ایم پی اے ہیں ¾ ان کے ایک فرزند سردار علی رضا خان دریشک پی پی 247جام پور سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے ہیںاور دوسرے فرزند سردار حسنین بہادر خان دریشک جو سابق صوبائی وزیر خزانہ بھی ہیں ق لیگ کے ضلعی صدرہیں ۔ یوں ن لیگ میں شمولیت کی صورت میں سردار نصراللہ خان دریشک کو دونوں بیٹو ں سمیت پی ٹی آئی اور ق لیگ کو خیر باد کہنا پڑے گا۔ کیونکہ تمام تر اختلافات اور گورچانی سرداروں کی کردار کشی کرنے کے باوجود سردار جعفر خان لغاری نہ صرف باضابطہ طورپر ن لیگ میں موجود ہیں بلکہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے گورچانی سرداروں کے اتحادی بھی ہیں ¾یوں سردار شیر علی خان گورچانی کو لغاری سرداروں سے اتحاد ختم کرکے دریشک سرداروں کو اتحادی بنانے کی صورت میں ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو ہر صورت میں اعتماد لینا پڑے گا اور اعلیٰ قیادت اس وقت تک ”گورچانی دریشک اتحاد “ کو شرف قبولیت نہیں بخشے گی جب تک سردار نصراللہ خان دریشک دونوں بیٹوں سمیت پی ٹی آئی اور ق لیگ کو خیر باد کہہ کر باضابطہ طورپر ن لیگ جوائن نہ کرلیں ۔جہاں تک سردار جعفر خان لغاری کا تعلق ہے تو وہ ”میں تے میڈا ڈھولن ماہی “ کے سلوگن کو قابو کئے ہوئے ہیں ¾ جاتی عمر میں اُن کے دوہی ”نرالے شوق “ باقی ہیں ایک اپنے دس سالہ اتحادی گورچانی سرداروں کی آخری حدتک جاکر جارحانہ پالیسی اور دوسری اپنی بیگم محترمہ مینا جعفر کی ہر صورت میں خوشنودی ۔ سردار جعفر خان ماضی میں سردار نصراللہ خان دریشک کے بھی اتحادی رہے ہیں ¾ مشرف دور میں دونوں ہی اس وقت کی حکمران جماعت ق لیگ میں تھے لیکن مشرف کے پورے ٹینور میںسردار جعفر خان لغاری جلسوں اور پارٹی اجلاسوں میں سردار نصراللہ خان دریشک پرسروپا الزامات لگاتے رہتے تھے ۔ اب خیر سے پچھلے 9سالوں سے ایک ہی جماعت میں رہتے ہوئے اپنے اتحادی سردار شیر علی خان گورچانی کو آڑے ہاتھوں لیا ہواہے ۔ گورچانی گروپ کا کہنا ہے کہ اگر بات سردار شیر علی خان گورچانی کی حدتک رہتی تو قابل برداشت تھی لیکن سردار شیر علی خان گورچانی کے والد بزرگوار سردار پرویز اقبال خان گورچانی بھی اس عرصہ میں سردار جعفر خان لغاری کا حدف رہے ہیں ¾ علاقہ پچادھ کے تمام بلوچ قبائل سردار پرویز اقبال خا ن گورچانی کو امن کی علامت قرار اور احترام دیتے ہیں ۔ سردار جعفر خان لغاری کی جانب سے سردار پرویز اقبال خان گورچانی کو حدف تنقید بنانے اور ان کی کردار کشی سے بلوچ قبائل ان (جعفر خان لغاری )سے شاکی تو تھے ہی رہی سہی کسر ان کی طرف سے کوہ سلیمان کے طویل پہاڑی سلسلے میں امن کی ضامن بی ایم پی کو پنجاب پولیس میں ضم کرکے بلوچ نوجوانوں کا استحصال کرنے اورعلاقہ پچادھ و کوہ سلیمان کے طویل پہاڑی سلسلے میں مقیم بلوچ قبائل کیخلاف ضرب عضب جیسے ملٹری آپریشن کرانے کی کوششوں نے پوری کردی ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے سردار وقاص نوید خان گورچانی کو ضلعی صدر جبکہ مرزا طارق خان مغل کو ضلعی جنرل سیکرٹری نوٹیفائی کردیا ہے جس سے ایک مدت کے بعد پارٹی کی سرگرمیاں بحال ہوگئی ہیں اور جیالوں میں پھر سے جوش وخروش پایا جارہاہے اس کا تمام تر کریڈٹ چوہدری سرورعباس کو جاتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی ضلعی صدارت پچاھ کے گورچانی کے پاس چلی گئی ہے قبل ازیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ضلعی صدارت بھی پچادھ کے گورچانی خاندان کے پاس ہے ۔ اس سے قبل دونوں جماعتوں کی ضلعی صدارتیں جام پور کے پاس تھیں ملک احسان عمران پاکستان پیپلز پارٹی اور عبدالرشید خان بلوچ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ضلعی صدر تھے ۔ اور دونوں جماعتوں کی جام پور میں تحصیل صدارتیں کوٹلہ مغلاں کے پاس تھیں ¾ میاں محمد افضل خان زرگر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور مرزا طارق خان مغل پاکستان پیپلز پارٹی کے تحصیل صدر تھے اور دونوں کا تعلق کوٹلہ مغلاں سے ہے ۔ ضلع راجن پور میں پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا اب سردار عبدالرﺅف خان لُنڈ ایڈووکیٹ کو تحصیل جام پور کا صدر بنوانے کے لئے بھی سرگرم ہے۔ سردار عبدالرﺅف خان لُنڈ قبل ازیں پیپلز پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں لیکن زردار ی کے سابقہ دورمیں چوہدری سرورعباس ایڈووکیٹ اور ملک احسان عمران ¾ ملک عابد حسین آرائیں ¾سابق ایم پی اے شازیہ عابد ایڈووکیٹ اور ملک سبطین سرور آرائیں سے اختلافات کے باعث زرداری لابی نے انہیں دیوار سے لگادیا تھا جس کے بعد انہوں نے جنوبی پنجاب کے کسانوں کی نمائندہ ”کسان کٹھ “ کے صدر اللہ بخ بلوچ کے ساتھ مل کر ”کسان کٹھ “ کے مرکزی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کاشتکاروں کے لئے کام کرنا شروع کیا ہواتھا ۔ دیکھیں وقت کے ساتھ مقامی سیاست میں کیا تبدیلی آتی ہے۔