”میں پاکستان آنا چاہتا ہوں“

جرمنی کے پیٹر ایگن نے کچھ عرصہ قبل تیسری دنیا کے ممالک (بشمول پاکستان و افریقی ممالک) کے حوالے سے ایک تحقیق کی جس میں اُس نے لکھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک ہر نعمت سے مالا مال ہونے کے باوجود پسماندہ اور غریب ہیں۔ پیٹر ماہر قانون دان اورماہر معاشیات ہیںوہ لکھتے ہیں کہ یہ ممالک مقامی سرداروں، کرپٹ سیاستدانوں اور سنگدل بیوروکریٹس، جرنیلوں اور جاگیرداروں کے دانتوں تلے دبے ہوئے ہےں....یہاں جب تک کرپشن کنٹرول نہیں ہو گی، یہ اس وقت تک معاشی ”ٹیک آف“ نہیں کر سکےں گے....اور یہ وہی پیٹر ہیں جنہوں نے 1993ءمیں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی تھی.... جو ملکوں کی کرپشن کو جانچتی اور ریٹنگ کرتی ہے.... جبکہ پاکستان کو یہ ”اعزاز“ حاصل ہے کہ کرپشن کے لحاظ سے وہ دنیا کے 120ممالک سے بدتر ہے.... پیلی ٹیکسی،روزگار سکیم،پڑھا لکھا پنجاب، تیل، گیس اور معدنی ذخائرمنصوبوں میں100-100ارب ڈکارے جا رہے ہیں.... نہ جانے کتنی ماڈل گرلز منی سمگلنگ میں ملوث ہیں ان کی آنیاں جانیاں ہی ختم نہیں ہوتیں۔ مال بنانے کے لئے پہلے قومی اداروں کو غیرمنافع بخش قراردے کر اونے پونے بیچ دیا جاتاہے شنیدہے کہ خریدنے والے بھی بیچنے والوں کے فرنٹ مین ہوتے ہیں.... کرپشن نے پاکستان سٹیل ملز،PIA،نندی پور پراجیکٹ،پاکستان ریلویز جیسے بڑے ا دارے تباہ کرکے رکھ دئیے لیکن کسی کو ذمہ دارقرار دیا گیا نہ کسی کا احتساب ہوا حالانکہ ہر کرپٹ شخص پاکستان کا دشمن ہے حکمرانوں نے ایسے ایسے طریقے اپنا رکھے ہیں کہ وہ اپنی کرپشن بھی دوسروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیںیعنی حکومت نے ایک پھندا ضرور رکھا ہوا ہے جو وہ کسی کے بھی گلے میں حسب ضرورت ڈال دیتی ہے اور جس کی ایک دلچسپ مثال سابق چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ آصف ہاشمی بھی ہیں کہ موصوف کی کردارکشی کے لےے جاری مہم تھمنے میں نہیں آرہی۔ واضح رہے کہ دبئی کے محکمہ¿ انصاف نے نہ صرف حکومت پاکستان کی طرف سے آصف ہاشمی کی حوالگی کی درخواست کو ردّ کر دیا بلکہ دبئی میں ان کی حفاظتی تحویل کو بھی بلاجواز اور غیرقانونی قرار دیا ہے۔آصف ہاشمی دسمبر2008ءمیں اس عہدے پر فائض ہوئے انہوں نے بطور چیئر مین اقلیتوں کیلئے تاریخی خدمات سرانجام دیں جس کی بنا پر بھارت میں گوردوارے کا سنگ بنیاد رکھوایا گیا جس سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی نیک نامی میں اضافہ ہوا اور حکومت پاکستان نے بھی اقلیتوں کی اعلیٰ خدمات کرنے پر ستارہ امتیاز سے نوازا۔ اس طرح آصف ہاشمی نے لاہور میں پارٹی کیلئے بہت کام کئے پارٹی کارکنوں کو نوکریاں دیں، راوی ٹول پلازہ ختم کروایا، نئے سکول اور کالجز، پاسپورٹ اور نادرا آفس بنوائے۔حد تو یہ ہے کہ آصف ہاشمی کے خلاف کسی کیس اور انکوائری میں کرپشن، مس کنڈکٹ اور اختیارات کا غیر قانونی استعمال ثابت نہیں ہوسکا۔ تمام امور قواعدو ضوابط کے تحت انجام دیئے گئے ہیں۔ آصف ہاشمی پر لگائے گئے الزامات اگرچہ پاکستان میں بھی ثابت نہیں کےے جاسکے، پھر بھی وزارت داخلہ اور معزز عدلیہ کے فیصلوں کے برعکس اور قانونی تقاضوں کو پورا کےے بغیر ان کے خلاف ریڈوارنٹ جاری کرنے جیسا مضحکہ خیز فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دبئی میں موجود آصف ہاشمی کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا اور حکومت پاکستان کی استدعا پر وہ حفاظتی تحویل میں لے لےے گئے اور پاکستانی حکام نے جب ان ریڈوارنٹس کو قانونی اور اخلاقی قرار دینے کے لےے بذریعہ ایف آئی اے عدالت سے درخواست کی تو اسے غیرقانونی قرار دیتے ہوئے سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کردیا گیا۔ اس کے بعد اسلام آباد کے اے ڈی سی جی آفس سے اسے قانونی قرار دلوانے کی کوشش کی گئی تو وہاں بھی دال نہ گل پائی۔ وزارت داخلہ نے آصف ہاشمی کے خلاف ریڈوارنٹس جاری کرنے کی اپیل کو 19ستمبر 2014ءکو بلاجواز قرار دیتے ہوئے ردّ کردیا تھا جبکہ پاکستانی حکام نے دبئی کی عدالت کو گمراہ کرنے کے لےے جو وارنٹ گرفتاری پیش کےے، وہ جعلسازی سے بنائے گئے وہ وارنٹ تھے جن پر 31اکتوبر 2013ءکی تاریخ درج تھی۔
جس معاہدہ کو بنیاد بنا کر آصف ہاشمی کے خلا ف یہ بلاجواز کارروائیاں کی جارہی ہیں، ایف آئی اے اپنی تحقیقات میں یہ تسلیم کرچکی ہے کہ یہ معاہدہ کرنے کا اختیار بورڈ کو تھا ہی نہیں، بورڈ صرف سفارش کرسکتا تھا اور یہ اختیارات صرف فیڈرل سیکرٹری اقلیتی امور کو حاصل تھے۔ اس وقت کے وفاقی سیکرٹری اقلیتی امور عبدالغفار سومرو اور جائنٹ سیکرٹری طاہر علی شاہ نے اس معاہدے کی اجازت دی تھی لیکن شومئی قسمت کہ ایف آئی اے کی جانب سے ٹھہرائے جانے والے اصل ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے سومرو صاحب کو الیکشن کمشن رُکن بنا دیا تھا موجودہ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں کے لےے یہ امر باعث تشویش ہونا چاہےے کہ ان کے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے دور میں ہونے والی تحقیقات میں ان کی سربراہی میں کمیٹی نے آصف ہاشمی کو ان الزامات سے بری کردیا تھا جبکہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی سب کمیٹی نے بعدازاں ریاض پیرزادہ کی سربراہی میں اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے آصف ہاشمی پر لگنے والے الزامات کی تردید کی۔ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں ہونے والے خصوصی آڈٹ میں بھی آصف ہاشمی کے مو¿قف کو درست قرار دیا گیا، یہاں تک کہ ہائی کورٹ نے تیس دن تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے آصف ہاشمی کو پاکستان آنے اور تمام مقدمات کا سامنا کرنے کو کہا۔ حکومت پاکستان نے آصف ہاشمی کو پاسپورٹ ہی جاری کرنے سے انکار کردیا۔
یہ دیکھنا اب چوہدری نثار علی خاں جیسے ذمہ دار اور بے باک سیاستدان کے لےے انتہائی ناگزیر ہوگیا ہے کہ قانونی تقاضوں کو پورا کےے بغیر ریڈوارنٹ کیسے اور کیوں جاری کروائے گئے۔ تمام تحقیقاتی رپورٹس اور ایف آئی اے کی تحقیقات کی روشنی میں ذمہ داران کی بجائے صرف آصف ہاشمی کو انتقامی طرزعمل کا نشانہ بنانے کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما ہیں اور عدالت کی واضح ہدایات کے باوجود پاکستان میں موجود ڈاکٹر ایس ایم یعقوب اور ڈاکٹر نذیر سعید کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی گئی کہ متروکہ وقف املاک کی 202کنال اراضی ایف آئی آر درج کروانے والے گلاب سنگھ ہی کے قبضے سے واگزار کروائی گئی۔ بدنیتی پر مشتمل اس تمام کارروائی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور ان جیسے باخبر وزیر وزیرداخلہ کے ہوتے ہوئے غیرقانونی اور غیراخلاقی طور پر ریڈوارنٹ کیوں جاری کےے گئے؟

ای پیپر دی نیشن