پاکستان نے کرکٹ چھیننے والوں کو آئینہ دکھا دیا، ایسا لگا جیسے میچ قذافی سٹیڈیم میں ہورہا ہے

لندن (حافظ محمد عمران/ نمائندہ سپورٹس) کوئی ہمارے ساتھ ہوم کرکٹ نہیں کھیلنا چاہتا، کوئی پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے، طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں غیر تو غیر اپنے بھی برا بھلا کہنے میں کسی سے کم اور پیچھے نہیں ہیں۔ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن یہ جو چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ٹیم نے کیا ہے اس نے سب کو آئینہ دکھا دیا ہے۔1954میں اوول کے مقام پر فضل محمود نے انگلینڈ کو ناکوں چنے چبوائے تھے تو گذشتہ روز ٹیم پاکستان نے انڈیا کو چاروں شانے چت کر کے چیمپئنز ٹرافی جیت کر بھارت کو بھی گہرا زخم دیا ہے۔ ہمارے لندن پہنچنے کی دیر تھی کہ یہاں کا موسم بھی گرم تر ہوتا گیا۔ یہاں موجود کچھ دوستوں نے کہا کہ آپ پاکستان سے گرمی بھی ساتھ لے آئے ہیں۔ ہمارا جواب تھا صرف گرمی ہی نہیں پاکستان ٹیم کو بھی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل تک بھی لے آئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں لندن میں مقیم پاکستانیوں کو بہت اچھی توقعات تھیں۔ لوگ میچ دیکھنے کے لیے تیاریوں میں مصروف دکھائی دیے۔ یہاں لوگ پاکستان کا میچ ایک قومی فرض سمجھ کر دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔ لندن میں مقیم پاکستانیوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ یار اپنی ٹیم ہے ہم نہیں جائیں گے تو کون جائیگا۔ سب اپنے اپنے کاموں کا شیڈول میچ کے اوقات کو دیکھ کر ترتیب دیتے ہیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ لاہور، کراچی، فیصل آباد، پشاور یا ملتان میں کسی میچ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ہمارے دوست عامر خان تو لندن میں پاکستانیوں میں قومی نا صرف قومی ٹیم کی شرٹس اور کیپس تقسیم کرتے ہیں بلکہ دوستوں کو سٹیڈیم جانے کی ترغیب بھی دیتے رہتے ہیں اس میچ کے لیے بھی انہوں نے بھرپور قومی جوش و جذبے کیساتھ تیاریاں کیں۔ لندن میں روایتی حریفوں کے مابین فائنل میچ دیکھنے کے لیے بعض لوگوں نے سخت گرمی کی وجہ سے روزہ بھی نہیں رکھ سکے ہمارے پوچھنے یہی جواب تھا کہ میچ دیکھنا بھی نیشنل ڈیوٹی ہے۔ شائقین کرکٹ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین چیمپئنز ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ کا فائنل کے موقع پر اوول کرکٹ سٹیڈیم کے باہر کے مناظر لاہور کے قذافی سٹیڈیم کا منظر پیش کر رہے تھے۔ اوول کے انڈر گرائونڈ ٹرین سٹیشن سے سٹیڈیم تک بہت دلچسپ مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے بذریعہ ٹرین ٹولیوں کی صورت میں سٹیڈیم پہنچنے والے شائقین میں جہاں بھی دونوں ملکوں کے شائقین کا آمنا سامنا ہوتا اپنے اپنے ملک کی حمایت میں نعروں کا مقابلہ بھی دیکھنے کو ملتا۔ اوول سٹیڈیم کے باہر سبز ہلالی پرچموں کی بہار تھی، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے، پاکستان کے جوشیلے شائقین کرکٹ اپنے چہروں پر پاکستانی پرچم پینٹ کروا رہے تھے۔ لندن میں بسنے والے پاکستانی ٹولیوں کی صورت میں اوول کرکٹ گرائونڈ پہنچ رہے تھے۔ گرائونڈ کے باہر ہی یہ جوش عروج پر نہیں تھا میدان میں جب کھیل کا آغاز ہوا تو ہر طرف پاکستان ہی پاکستان تھا۔ فخر زمان حقیقی معنوں میں فخر پاکستان بنے اظہر علی نے مان بڑھایا، بابر نے بلا خوب چلایا تو پروفیسر نے بھی قرض چکایا۔ عامر نے وکٹیں اڑائیں تو حسن نے بھی سب کا سانس بند کر دیا۔ جنید خان اور شاداب نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ایک اجتماعی کوشش نے پاکستان کو آئی سی سی کے ایونٹ کا چیمپئین بنا دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...