نو آموز صحافیوں کو درپیش مسائل

جرنلسٹ چاہے پرنٹ میڈیا میں ہوں ےا الیکٹرونک میڈیا میں اس کا قلع اور کا غذ سے بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے ۔ قلم کاغذ کے بغیر صحافی نا مکمل سمجھا جاتا ہے ۔لکھنا‘پڑھنا ‘تحقیق کرنا اور تحقیق کے بعداس موضوع پر اپنی رائے دینا ایک صحافی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔کالج ‘یونیورسٹیز میں جہاں جہاںماس کمیونی کیشن ‘ میڈیا سائنسز یا جرنلزم کے شعبے ہیں وہاں طالب علموں کو کتا بوں میں موجود تھیوریز اور ان تھیوریز کی تعریفیںتو رٹوائی جا رہی ہیں لیکن طلبا کو لکھنا نہیں سکھایا جاتا جو کہ ایک پیشہ ورصحافی کے لئے نہایت ضروری ہے اور دیکھا جائے تو جرنلزم میں ڈگری حاصل کر نے کے بعد طلبا کو فیلڈ میں جانا ہوتاہے وہاں اس کا عملی صحافت سے واسطہ پڑتا ہے جہاں اسے صرف لکھنا ہے کبھی مرضی سے تو کبھی ایڈیٹر پر لیکن اگر طالب علم کو جرنلزم میں ماسٹرز کرنے کے بعد بھی کسی ایشو پر لکھنا نہ آئے یا اسے یہ ہی نہ پتہ ہو کہ خبر کہتے کسے ہیں یا فیچر اور کالم میں بنیادی فرق کیا ہوتا ہے تو اس کی ڈگری کا کوئی فائدہ نہیں ۔پاکستان میں جہاں جہاں جرنلزم پڑھایا جا رہا ہے ان تمام درسگاہوں میں اساتذہ نے ایک ہی طرز عمل اپنایا ہوا ہے جس میں شاید یہ شامل ہی نہیں کہ طلبا کو یہ سکھایا جائے کہ کس طرح سے لکھنا ہے حالانکہ جرنلزم کے طالب علم کا اصل کام لکھنا ہے۔ اکثر صحافت کے طالب علموں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ انہیں لکھنے کے لئے موضوع نہیں مل رہا اساتذہ طلبا کو کس طرح لکھنا ہے یہ بتائے بغیر ہی انہیں اخبار میں آرٹیکلز‘ مراسلے ‘فیچرز اور دیگر چیزیں چھپوانے کے اسائنمنٹس میں پھنسا دیتے ہیں اور طلبا اسی کشمکش میں پھنسے رہتے ہیں کہ آیا لکھیں تو کس موضوع پر لکھیں اور اگر موضوع مل بھی جائے تو شروع کہاں سے کریں اور جیسے تیسے طالب علم نے کسی موضوع پر لکھنا شروع بھی کر دیا تو اس کا اختتام ایک مسئلہ بن جاتا ہے ۔ اندازہ لگائیںجس جس یونیورسٹی میں ماس کمیونی کیشن ‘میڈیا سائنسزاور جرنلزم پڑھایا جا رہا ہے وہاں بیچلرز اور ماسٹرز دونوں کی تقریبا ؟کلاسز ایک سیمسٹر کی ہوتی ہیں اور ہر کلاس میں 50کے قریب طلبا ہوتے ہیں اس طرح ایک یونیورسٹی کے 300طلبا کو سیمسٹر میں تقریبا دس دس مراسلے یا آرٹیکلز چھپوانے کےلئے دیئے جاتے ہیں کل تعداد 3000تک پہنچ جاتی ہے ۔اس صورتحال میں طلبا اساتذہ سے مدد طلب کرتے ہیں لیکن اساتذہ کی جانب سے طلبا کو سدا بہار موضوع بتا دیئے جاتے ہیں جو ہرروز اخبار میں چھپنا ممکن نہیں ہو تا ۔ ان میں ٹریفک کے مسائل‘ پانی ‘بجلی ‘ گیس کے مسائل‘ کچرے کی منتقلی ودیگر موضو عات شامل ہیں۔جبکہ ہونا یہ چاہیئے کہ اساتذہ اورطلبا اخبار کا مطالعہ مستقل مزاجی سے کریں تا کہ انہیں حالات حاضرہ سے واقفیت ہو اور نئے نئے موضوعات ان کے سامنے آئیں ۔ہمارے اساتذہ پیشہ ور نہ ہونے کے باعث طلبا کو اچھی طرح گائیڈ نہیں کرپاتے کیوں کہ یونی ورسٹیز میں پڑھانے والے اساتذہ نے فیلڈ میں بہت کم کام کیا ہوتا ہے یا کچھ نے تو بالکل نہیں یا ہوتا تو وہ طلبا کو لکھنا نہیں سکھاپاتے اور طلبا پر زور دیتے ہیں کہ وہ اخبارات ‘رسائل اور جرائد میں اپنی تحریریں چھپوا ئیں۔ جوان کے لیئے محال ہوتا ہے ۔ ہونا تویہ چاہیے کہ اساتذہ پہلے طلبہ کولکھنا سکھائیںاور بعد ازاں انکے تحریر کردہ مضامین خود چیک کریں مگر وہ اپنی جان چھڑا کر طلبہ کوایڈیٹروں کے حکم کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ ان میں کئی طلبہ کے مراسلات ومضامین نہیں چھپ پاتے جسکی وجہ سے انکے مارکس کٹ جاتے ہیں جوطلبہ کے ساتھ اساتذہ کی زیادتی ہے ۔ طلبہ پر مراسلات ومضامین اخبارات میںچھپوا نے کی پابندی ختم کی جانی چاہیئے۔
محمد ثاقب اشرف(کراچی)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...