ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت اور شمالی وزیرستان میں پاکستانی چوکیوں پر افغانستان کے اندر سے دہشتگردوں کا حملہ
افغان صدر اشرف غنی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کی تصدیق کردی ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کیا اور ملا فضل اللہ کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فضل اللہ کی ہلاکت مثبت پیش رفت ہے جس سے سانحہ اے پی ایس پشاور سمیت دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونیوالوں کے ورثاءکو ریلیف ملا ہے۔ آئی ایس پی آر کے بقول پاک فوج کی قیادت نے ہمیشہ کہا ہے کہ باہمی تعاون اور اشتراک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔ اسی طرح افغان وزارت دفاع نے بھی امریکی ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ کے مارے جانے کی تصدیق کردی ہے جبکہ امریکی فوج نے کہا ہے کہ ڈرون حملے میں دہشت گرد تنظیم کے سینئر رہنماءکو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ امریکی ڈرون حملہ 13 جون کو افغانستان کے صوبہ کنٹر میں کیا گیا تھا۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق یہ کارروائی امریکی اور افغان فورسز نے مل کر کی ہے۔ حملہ رات کے وقت ہوا جس میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ کنٹر ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ مارا گیا ہے۔ ملا فضل اللہ 2013ءمیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ مقرر ہوا تھا۔ 13 جون کی رات ہونیوالے ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ کے چار محافظ بھی ہلاک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق حملے میں ہلاک ہونیوالے افراد مکمل طور پر جل گئے تھے۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق طالبان ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبر کو صیغہ¿ راز میں رکھ رہے ہیں اور ممکن ہے کہ اس کا اعلان طالبان شوریٰ کی جانب سے امیر کے انتخاب کے بعد کیا جائے۔ ملا فضل اللہ تحریک نفاذِشریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کا داماد تھا۔ افغان صدر نے نگران وزیراعظم ناصرالملک کو بھی فون کرکے انہیں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بارے میں آگاہ کیا جس پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ فضل اللہ کی ہلاکت دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اہم پیش رفت ہے۔
ملا فضل اللہ پیپلزپارٹی کے دور میں شروع ہونیوالے سوات اپریشن کے دوران فرار ہو کر افغانستان چلا گیا تھا جو وہیں سے پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی منصوبہ بندی اور دہشت گردوں کو کمک فراہم کرتا رہا۔ وہ 16 دسمبر 2014ءکو آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونیوالی سفاکانہ دہشت گردی کا بھی ماسٹر مائند تھا جس میں ڈیڑھ سو کے قریب بچوں اور انکے اساتذہ بشمول پرنسپل کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ اس سے قبل طالبان کے فضل اللہ گروپ نے ہی ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرکے اسے مارنے کی کوشش کی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اسکے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔ کنٹر میں 13 جون کو اس پر اس وقت ڈرون حملہ کیا گیا جب طالبان نے اتحادی اور افغان فورسز کیخلاف ماہ رمضان المبارک کی وجہ سے جنگ بندی کا اعلان کر رکھا تھا اور جنگ بندی میںعیدالفطر کے بعد توسیع کا بھی عندیہ دے دیا تھا تاہم ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد طالبان نے جنگ بندی میں توسیع کا اعلان واپس لے لیا جس کے بعد شمالی وزیرستان میں افغانستان کے اندر سے پاکستانی چوکیوں پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا جس میں پاک فوج کے تین جوان شہید ہوگئے جبکہ پاک فوج کی جوابی کارروائی میں پانچ دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ پاکستانی چیک پوسٹوں پر افغانستان کے اندر سے چونکہ پہلے بھی ملا فضل اللہ کے ایماءپر ہی حملے ہوتے رہے ہیں اس لئے عیدالفطر سے ایک روز قبل ہونیوالے حملے میں بھی ملافضل اللہ گروپ کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ملا فضل اللہ پر ڈرون حملے سے دو روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ افغانستان کے دورے پر تھے جس کے دوران دہشت گردوں کیخلاف مشترکہ اپریشن کے تمام ممکنہ پہلوﺅں پر غور کرکے مشترکہ میکنزم پر اتفاق رائے ہوا تھا جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی بھی سب سے پہلے پاکستان کے آرمی چیف ہی کو فون کرکے اطلاع دی اس لئے ملا فضل اللہ کی ہلاکت مشترکہ میکنزم کی پہلی کامیابی قرار دی جا سکتی ہے جس کی تصدیق افغان وزارت دفاع کے ترجمان کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ کنٹر میں 13 جون کو ڈرون حملہ افغان اور اتحادی فورسز کی مشترکہ حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان افغانستان مشترکہ حکمت عملی ہی دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہے جس کیلئے پاکستان کی جانب سے کابل انتظامیہ کو متعدد مواقع پر باور بھی کرایا جاتا رہا ہے۔ اگر اس خطہ میں دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے شروع دن سے ہی مشترکہ میکنزم طے کرکے اس پر عمل شروع کردیا گیا ہوتا تو یہاں دہشت گردی کا ناسور پھیلنے کی یقیناً نوبت ہی نہ آتی مگر بدقسمتی سے سابق افغان صدر حامد کرزئی امریکی کٹھ پتلی کی حیثیت سے بھارت کے آلہ¿ کار بن کر پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھانے میں مصروف رہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اقتدار کی دونوں ٹرمیں بھارتی لب و لہجے میں پاکستان پر الزام تراشی اور دہشت گردی کا ملبہ اس پر ڈالنے کی سازشوں میں گزار دیں جبکہ اپنے اقتدار کی دوسری ٹرم میں انہوں نے نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کیلئے اکسانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اب وہ اقتدار میں نہیں ہیں تو انہیں افغانستان میں پرورش پانے والی دہشت گردوں کی نرسریوں اور عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے بھی افغان سرزمین پر ٹھکانے بنانے کے پس منظر میں امریکہ کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے جبکہ بطور افغان صدر وہ افغان دھرتی پر یہی کام امریکہ کی خوشنودی کیلئے خود کرتے رہے ہیں اور پھر بھارت کو بھی انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دی جس نے افغانستان کے مختلف شہروں میں اپنے 18 قونصل خانے قائم کرکے انکے ذریعے افغان سرزمین پر اپنے دہشت گرد تیار کئے اور انہیں افغان سرحد سے پاکستان میں داخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اگر کرزئی اس وقت پاکستان کیخلاف بھارتی سازشوں میں معاون نہ بنتے تو ہماری دھرتی دہشت گردی کی آگ میں جھلستی نظر نہ آتی۔ بھارت کے بھجوائے ہوئے یہی وہ دہشت گرد ہیں جنہوں نے بطور خاص یہاں سکیورٹی کے اداروں‘ انکی تنصیبات اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کا سلسلہ شروع کیا چنانچہ سانحہ اے پی ایس پشاور کے علاوہ کراچی نیول ہیڈکوارٹر‘ پشاور ایئربیس‘ کامرہ اور دوسرے حساس مقامات پر دہشت گردی کی گھناﺅنی وارداتیں کرنیوالوں میں افغانستان کے راستے سے بھارت کے بھجوائے گئے دہشت گرد ہی ملوث رہے ہیں جن کی نعشوں کی شناخت کے بعد انکے بھارتی باشندے ہونے کی تصدیق ہوتی رہی ہے۔ اس طرح جس افغان سرزمین کی جانب سے مسلم برادرہڈ کے ناطے ہمیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے چاہئیں تھے‘ اسکی جانب سے ہمیشہ ہمیں دشمنی پر مبنی پیغامات اور اشارے ہی ملے۔
اشرف غنی نے افغان صدر منتخب ہونے کے بعد اپنا پہلا دورہ پاکستان کا کیا اور انہیں جی ایچ کیو میں دہشتگردوں کی افغان سرزمین پر سرگرمیوں کے حوالے سے مفصل بریفنگ بھی دی گئی جسکے بعد انہوں نے افغانستان واپس جا کر پاکستان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس سے توقع پیدا ہوئی تھی کہ پاکستان اور افغانستان مشترکہ حکمت عملی کے تحت اپریشن کرکے اس خطے کو دہشتگردی کے ناسور سے مکمل نجام دلانے میں کامیاب ہو جائینگے تاہم یہ خوش فہمی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور بھارت نے ایران کی چاہ بہار پورٹ کا چکمہ دےکر کرزئی کی طرح اشرف غنی کو بھی اپنے دام میں پھنسا لیا چنانچہ وہ اب تک بھارتی لب و لہجے میں ہی پاکستان پر دہشتگردی کا سارا ملبہ ڈالتے رہے ہیں۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے گزشتہ ہفتے کے دورہ¿ کابل کے موقع پر کابل انتظامیہ کو بھی دہشت گردی کے تدارک کیلئے مشترکہ میکنزم کے تحت ٹھوس کارروائی عمل میں لانے کی اہمیت کا ادراک ہوا اور اس مشترکہ میکنزم کے تحت کی گئی کارروائی میں پہلی کامیابی ممکنہ طور پر کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی صورت میں حاصل ہوئی ہے جو دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں یقیناً نتیجہ خیز پیش رفت ہے۔ اس پر سانحہ¿ اے پی ایس پشاور کے شہید بچوں کے والدین ہی نہیں‘ پوری قوم سکھ کا سانس لینے کی پوزیشن میں آئی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اہل وطن کو عید کی مبارکباد دیتے ہوئے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ قوم آج پرامن ماحول میں عید کی خوشیاں منا رہی ہے جو دہشتگردی کی جنگ میں پاک فوج کے شہداءکی کامیابیوں کا ثمر ہے۔ ملک اور قوم کیلئے سکیورٹی فورسز کے ارکان کی شہادتوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے چنانچہ عیدالفطر سے ایک روز قبل شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کی جانب سے افغانستان کے اندر سے ہونیوالے حملے میں بھی تین جوانوں نے اپنی جانیں ملک و ملت کی حفاظت کی خاطر نچھاور کردیں۔ ملک اور قوم کیلئے اس سے بڑی قربانی بھلا اور کیا ہوسکتی ہے۔ اب ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد پاک افغان مشترکہ میکنزم کو ٹھوس اور مربوط انداز میں بروئے کار لایا گیا تو ملا فضل اللہ گروپ سمیت دہشت گردوں کے کسی بھی گروپ کو افغانستان اور پاکستان میں اپنے قدم جمانے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ خدا کرے کہ افغانستان اس مشترکہ میکنزم پر کار بند رہے۔ اسکے بعد دہشت گردی کی جنگ جیتنے کیلئے ہمیں کسی بیرونی کمک یا سہارے کی قطعاً ضرورت نہیں رہے گی۔
پاک افغان مشترکہ میکنزم بروئے کار لایا جائے تو د ہشتگردی کی جنگ جیتنے کیلئے ہم کسی بیرونی کمک کے محتاج نہ رہیں
Jun 19, 2018