فلموں اور گیتوں میں عید کا دِن

شاہد لطیف
ایک زمانہ تھا جب ملک میں فلمساز ،اسٹوڈیو مالکان اور تقسیم کار ، نمائش کنندگان/ سنیما مالکان سے پیشگی معاملات طے کر کے اپنی فلموں کو عید کے موقع پر نمائش کے لئے پیش کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ عید پر لگنے والی بیشتر فلمیں بہت عمدہ بزنس کرتی تھیں لیکن میں نے عید پر فلمیں ناکام ہوتے ہوئے بھی دیکھیں جو ایک ھفتہ بھی مکمل نہ کر سکیں۔
 شاید نیک شگون کے لئے نئی فلمیں جمعہ کے روز سنیماﺅں کی زینت بنا کرتی تھیں۔70 کی دہائی کا ذکر ہے ، راقم کے گھر کے بالکل قریب دو عدد سنیما گھر تھے جہاں میں نے عید پر لگنے والی فلموں کے علاوہ بہت سی فلموں کے پہلے دن کا پہلا شو بھی دیکھا ۔ ایک اسرار اور سنسنی ہوا کرتی تھی کیوں کہ اُس فلم کا ٹریلر دیکھ رکھا ہوتا تھا۔ عید پر لگنے والی فلموں کی تو بڑی بات ہوا کرتی تھی ۔ اُن فلموں کو کامیاب کروانے میں مجھ جیسے لاکھوں افراد کا حصہ ہے۔ 
 اب کچھ عید کے موضوع پر بننے والی فلموں اور گیتوں کی بات ہو جائے۔ جمعہ 2 جولائی 1965کو سلور جوبلی فلم ” عید مبارک“ نمائش کے لئے پیش کی گئی۔ میری تحقیق کے مطابق یہ واحد فلم ہے جو عید کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اس کے مشترکہ فلمساز ایف ایم سردار اور ایس ایم یوسف تھے۔کہانی، مکالمے اور تمام گیت فیاض ہاشمی نے لکھے اور موسیقار اے۔حمید تھے۔ ایس ایم یوسف کے ہونہار صاحبزادے اداکار اقبال یوسف کی بحیثیت اداکار یہ پہلی فلم تھی۔انہوں نے ہدایتکار کی حیثیت سے27 فلمیں بنائیں۔ فلمساز و اداکار وحید مراد کی زندگی کی آخری فلم ” ہیرو“ (1985) کے ہدایتکار کے لئے انہوں نے اپنے دیرینہ ساتھی اقبال یوسف کا ہی انتخاب کیا۔
 فلم ” عید مبارک“ کی فلم بندی ایسٹرن اسٹوڈیو کراچی اور ایور نیو اسٹوڈیو لاہور میں کی گئی۔ مذکورہ فلم کے کیمرہ مین محبوب علی اور معاون جان محمد تھے جو آ گے چل کر اچھے کیمرہ مین اور کامیاب فلموں کے فلمساز اور ہدایت کار بنے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہماری فلمی صنعت کے سنہری دور میں اُستاد اپنے شاگردوں پر کتنی محنت کرتے اور شاگرد بھی استاد کے نقشِ قدم پر چل کر ان کا حق ادا کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اداکار اظہار قاضی کے ساتھ اپنے انتقال تک بہت سی کامیاب فلمیں پیش کیں ۔ فلم ” عید مبارک“ کے گلوکار مالا، نذیر بیگم ، طلعت صدیقی، احمد رشدی، منیر حسین اور ریحانہ یاسمین تھے۔ گیتوں کی ریکارڈنگ ہماری فلمی دنیا کے مانے ہوئے اور نگار ایوارڈ یافتہ ساﺅنڈ ریکارڈسٹ سی منڈوڈی نے کی۔مجھے منڈوڈی صاحب کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہے۔فلم کی ہدایات ایس ایم یوسف نے دیں۔اداکاروں میں حبیب، زیبا، وحید مراد، رخسانہ، اقبال یوسف، نرالا،فیضی، ادیب، صابرہ سلطانہ، سیما، جی این بٹ اور کمال ایرانی تھے۔فلم ” عید مبارک“ کراچی میں 40ہفتہ چلی ۔ 
فیاض ہاشمی نے فلم کی کہانی عید الفطر کی چاند رات سے شروع کی اور پھر کئی اتار چڑھاﺅ کے بعد عیدِ قربان پر عین عید کی نماز کے موقع پر ڈرامائی موڑ آیا اور ....اِس فلم میں ایک بہت مشہور نعت بھی ہے جسے مالا اور ساتھیوں نے ریکارڈ کرایا: ” رحم کرو ےا شاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم، نظرِ کرم یا نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم....“۔ اس فلم میں عوام کی دلچسپی کی تمام اشیاءتھیں،جان دار اور با مقصدمکالمے، بھرپور ڈرامہ، اچھی موسیقی.... جب یہ نمائش کے لئے تیار ہو رہی تھی تو بعض سنیما مالکان اس کو پیش کرنے میں ہچکچا رہے تھے....ہچکچاہٹ بھی کیسی.... کہ فلم کا نام ’ غیر فلمی ‘اور غیر رومانی ہے....حالاں کہ عوام کے پسندیدہ اداکار کاسٹ میں شامل تھے۔لیکن یہ خدشات غلط ثابت ہوئے۔ اِس اصلاحی فلم کو بہت پذیرائی ملی ۔ 
جمعہ 5 ستمبر 1969کو فلمساز و ہدایت کار فیروز کی فلم ” السلام علیکم“نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اس کے موسیقار نذر اور صابر صاحبان کی جوڑی المعروف نذر صابر تھے اور گیت مسرورزیدی اور شبی فاروقی نے لکھے۔کم و بیش مندرجہ بالا باتیں مذکورہ فلم سے متعلق بھی کہی گئیں۔گو کہ یہ فلم سُپر ہٹ تو نہ ہوئی لیکن ریلیز سے بہت پہلے اس کے کئی گیت اُس وقت کی سپر ہٹ فلموں سے زیادہ مقبول ہوئے :” ہولے ہولے پَوَن چلے ڈولے جیا رے، نیلے نیلے گگن تلے آ جا پیا رے....“ گیت نگار شبی فاروقی اورآواز رونا لیلیٰ:” الف سے اللہ ب بسم اللہ پ سے پاکستان....“ کورَس، جس میں نمایاں آواز احمد رشدی کی تھی:” محبت کے دےے جلا لو وفا کے گیت گنگنا لو تقاضا ہے یہ زندگی کا....“ کورَس، جس میں نمایاں آواز سلیم شہزاد کی تھی۔ میری آواز بھی آخر الذکر دونوں کورَسوں میں شامل ہے۔
جمعہ15 ستمبر 1972 کو فرید احمد کی ہدایت میں بننے والی سلور جوبلی فلم ” انگارے “ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اداکاروں میں ندیم، شمیم آرا، نشو، مسعود اختر، دلجیت مرزا، طالش، روشن، منیر ظریف ، ساقی اور پنڈت شاہد تھے۔اس فلم میں احمد رشدی اور مالا کا ایک دوگانا ندیم اور نشو پر فلمایا گیا۔اس کی موسیقی اے حمید کی تھی ،اور بول کلیم عثمانی کے تھے۔یہ گیت بہت مقبول ہوا: عید کا دن ہے گلے ہنس کے لگا لو مجھ کو، رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
یوں نہ بے تاب ہو وہ دن بھی ضرور آئے گا ، اپنی منزل ہے اگر پاس تو کچھ دور بھی ہے جمعہ 9اگست 1974کو فلمساز ایم احمد شمسی اور ہدایت کار ایس سلیمان کی سلور جوبلی فلم ” انتظار“ نمائش کے لئے پیش کی گئی۔ کہانی علی سفیان آفاقی کی، گیت نگار مسرور انور اور موسیقار نثار بزمی تھے۔ اس فلم میں عید کی مناسبت سے مہدی حسن کی آواز میں ندیم اور شبنم پر فلمایا گیا ایک گیت سُپر ہِٹ ہو ا :”عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملئےے، رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے....“ ۔
 اس گیت میں مسرور انور نے نہایت سادے پیرائے میں عید اور عید پر جذبات کی ترجمانی کی ہے پھر نثار بزمی کی دل پذیر دھن نے اس گیت کولا زوال بنا دیا۔اب عید کا دن ہو اور ریڈیو پاکستان، اس کے ایف ایم 101 اور دیگر ایف ایم اسٹیشنوں سے یہ گیت نہ لگایا جائے ایک ناممکن سی بات ہے!
” رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے“ یہ اُردو زبان کی ایک ضرب المثل ہے اوران دونوں گیت نگاروں، کلیم عثمانی اور مسرور انور نے اپنے گیتوں میں اس کا بر محل استعمال کیا۔
جمعہ 19 اپریل 1968کو پنجابی فلم ” پگڑی سنبھال جٹّا“ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اس کے ہدایت کار ایس اے بخاری تھے۔ کہانی تنویر کاظمی کی ، گیت نگار وارث لدھیانوی اور موسیقار طفیل فاروقی تھے۔وارث لدھیانوی نے جوگیت سیف الدین سیف کی فلم ” کرتار سنگھ “کے لئے لکھ دیا وہ اُن کے فن اور شہرت کی معراج ہے : ” دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا....“۔ 
 فلم’ پگڑی سنبھال جٹّا“ میں بھی عیدکی مناسبت سے ان کا ایک گیت نذیر بیگم اور مالا کی آوازوں میں سُپر ہِٹ ہوا۔یہ اداکارہ فردوس اور عالیہ پر فلمایا گیا تھا:
 چَن، چَن دے سامنے آ گیا 
میں دواں دے صدقے جاواں ہیرئے
سوہنئے عید مبارک
 اسی گیت کو سامنے رکھتے ہوئے فلم ” سوتن میری سہیلی“ میں اداکارہ نیلی اور ریما پر فلمایا ہوا چاند رات سے متعلق یہ گیت : 
 ہوا چاند چاند کے سامنے
دونوں کو عید مبارک
سہیلی عید مبارک
 بہت کوشش کے بعد بھی خاکسار کو مذکورہ فلم کی تفصیلات حاصل نہ ہو سکیں۔بہت افسوس کی ساتھ لکھنا پڑتاہے کہ پاکستانی فلموں پر تحقیق کرنا بے حد دشوار جب کہ بھارتی فلموں پر نہایت آسان۔وہاں توعید سے متعلق اتنا کچھ مواد ملتا ہے کہ .... کچھ امثال پیش کرتا ہوں۔ 1960میں فلمساز آر چندرا اور ہدایت کار پی ایل سنتوشی کی سپر ہِٹ فلم ” برسات کی رات“ پیش ہوئی ۔ساحرلدھیانوی گیت نگار اور روشن موسیقار تھے۔اس فلم میں لتا منگیشکر کی آواز میںسدا بہار گیت:
مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا
کیسی خوشی لے کے آیا چاند عید کا
اسی طرح 1958میں بننے والی فلم ” سوہنی ماہیوال“ میں موسیقار نوشاد علی اور گیت نگار شکیل بدایونی کا یہ المیہ گیت بہت مقبول تھا: 
عید کا دن تےرے بن ہے پھیکا
آجا آجا کہ دن ہے خوشی کا
30 جولائی 1943 کو محبوب پروڈکشن کے فلمساز و ہدایت کار محبوب خان کی فلم ” نجمہ“ سنیماﺅں کی زینت بنی۔اِس فلم کی خاص بات کہ انہوں نے اداکار اشوک کمار کو اس فلم کا 100,000/روپے معاوضہ د یا۔اُس زمانے میں ایک لاکھ روپے اداکار کو دینا ....فلم کے گیت انجم پیلی بھیتی نے لکھے اور موسیقار رفیق غزنوی تھے۔اس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا۔اس میںعید مبارکباد کاایک گیت انٹرنیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے: ”عید ملو عید ....“۔
جمعہ 27 مئی 1966 کو اداکار و فلمساز محمد علی اور ہدایت کار اکبر علی کی سلور جوبلی فلم ” عادل“ کی نمائش ہوئی۔گیت نگار حمایت علی شاعر اور مشیر کاظمی اور موسیقار نثار بزمی تھے۔اس فلم میں عید کے چاند سے متعلق قوالی بہت مشہور ہوئی۔اسے احمد رشدی ، مالا اور ہم نواءنے ریکارڈ کرایا:
رُخ سے زلفیں جوہٹاﺅ تو مزا آ جائے
عید کا چاند دکھاﺅ تو مزا آ جائے
گلوکار عالمگیر نے بھی چاند رات پر عدیمہاشمی کا لکھا اور کریم شہاب الدین کی موسیقی میں پاکستان ٹیلی وژن کے موسیقی کے پروگرام کے لئے ایک سدا بہار گیت ریکارڈ کرایا۔ یہ اُس وقت بھی عالمگیر کی پہچان بنا اور اب بھی وہ شائقین کے سامنے اس کو لازمی سناتا ہے:
تم کیا ملے زندگی ملی
چاند رات کو چاندنی ملی
مجھ کو ساری زندگی کا پیار مل گیا
یہاں ایک بات کہنا بہت ضروری ہے کہ خواہ فلمی/ غیر فلمی گیت ہو، ریڈیو ٹیلی وژن کا کوئی سدابہار نغمہ ، کیسٹ سی ڈی یا ایم پی تھری /فور ہو اِس کو مقبول کرنے میں موسیقار کی اہمیت گلوکار سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ۔کسی بھی فنکار کی دل آزاری مطلوب نہیں ۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے جو آپ نے بھی محسوس کیا ہو گا کہ مقبول ہونے کے بعد یہ فنکار اپنے مقبول گیت کے ذکر میں موسیقار کا نام نہیں لیتے۔ گیت نگار کی اپنی اہمیت مسلم ہے لیکن افسوس کہ ان کا نام الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا میں آتا ہی نہیں۔شاعر اورموسیقار اُسی شہرت کے حق دار ہیں جو گلوکار کو حاصل ہے۔ 
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارتی فلموں میں اب بھی عید، چاید رات وغیرہ سے متعلق مناظر اور گیت شامل ہوتے ہیں۔مثلاََ 8 فروری 2002 کو فلمساز پریم کِشن اور ہدایت کار اُمیش مہرہ کی فلم ” یہ محبت ہے“ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اس کے تمام گیت دیو کوہلی نے لکھے اور موسیقار انند راج انند تھے۔عید کے چاند دیکھنے کے پس منظر میں اس فلم کا مندرجہ ذیل گیت بہت مقبول ہوا:
 چاند سامنے ہے عید کا، تجھ پر ہے میری نظر
جانتا ہوں میں یہ صنم ، گستاخ ہے میری نظر
بھارت میں مسلم سوشل فلموں نے ہمیشہ ریکارڈ بزنس کیا۔فلمساز و ہدایتکار گرودت نے1960 میںسُپر ہٹ فلم ” چودھویں کا چاند“ بنا کر بھارت کی پہلی سنیما اسکوپ فلم ” کاغذ کے پھول“(1959 ) کی ناکامی کے بھاری نقصان کی تلافی کی تھی۔ فلم ” چودھویں کا چاند“ کے علاوہ نئی پرانی کئی ایک بھارتی فلمیں ہیں جن میں عید اور چاند رات کا ذکر ہو ا ےا عید اور چاند رات کے گیت ہیں۔ البتہ ہماری فلمی صنعت نے کئی عرصہ سے اس طرف توجہ نہیں دی۔ حالاں کہ پاکستانی فلموں کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایسے مناظر اور گیتوں نے اُن فلموں کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔میں خود بھی 1974 میں فلم ” انتظار “ اُس کے مقبول گیت ” عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملئےے....“ کی وجہ سے دیکھنے گیا ۔عید کا چاند دیکھنا، گلے ملنا، روٹھوں کو منانا، میٹھی عید پر سویوں کا اہتمام.... نہ جانے کیوں اس سب کوفلموں اور فلمی گیتوں سے بے دخل کر دیا گیا ہے !
 

ای پیپر دی نیشن