اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دو سال بعد عوامی جہوریہ چین 1949میں آزاد ہوا۔ لیکن جس رفتار سے اس ملک نے ترقی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس وقت چین عالمی معیشت پر تیزی سے چھایا ہوا ہے۔ عالمی کساد بازاری میں ہر ملک بحران کا شکار ہے لیکن چین اور برازیل واحد ممالک ہیں جن کی ترقی پر عالمی کساد بازاری کا فرق نہیں پڑا۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں چین کی مصنوعات استعمال نہ ہورہی ہوں۔ چین نے کیسے ترقی کی ؟ ماؤزے تنگ جدید چین کا بانی شمار کیا جاتاہے۔چین کو ترقی دینے میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ چین کے لوگ افیون اورہیروئین کے نشے کی لت میں مبتلا تھے۔ لیکن ماؤزے تنگ نے اپنی قوم سے یہ لت چھڑوا کر اسے دنیا کی ایک محنتی قوم بنا دیا۔ ماؤزے تنگ نے تاریخ کے سب سے بڑے لانگ مارچ کے دوران اپنی قوم کو ہدایت کی تھی کہ وہ لانگ مارچ کے دوران چنے اور گرم پانی ساتھ رکھیں۔ چنے تھوڑے سے کھانے سے آپ کی بھوک ختم ہو جائے گی اور گرم پانی آپ کو پیٹ کی بیماریوں سے بچائے گا۔ آج بھی چینی قوم گرم پانی استعمال کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ قوم صحت مند اور توانا ہے۔چین کی کیمونسٹ پارٹی نے بیجنگ میں ایک انسٹیٹوٹ قائم کر رکھا ہے جہاں پارٹی کے اراکین کو متعلقہ شعبوں میں وزیر، مشیر بنانے اور چین کے لیے نئی قیادت تیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت مکمل ہونے کے بعدان کو سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس اس انسٹیٹیوٹ کا سر ٹیفکیٹ نہ ہو تو اسے وزیریا مشیر کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں تک کہ چین کے آنیوالے صدر کو پانچ سال پہلے ہی صدر بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ چین کے رہنما ماؤزے تنگ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بہترین انگلش جاننے کے باوجود انہوں نے پوری زندگی کبھی انگلش نہیں بولی یہاں تک کہ انہیں انگلش میں لطیفہ بھی سنایا جاتا تووہ اس وقت تک ہنستے نہیں تھے جب تک اسکا ترجمہ نہیں کیا جاتا تھا۔ یعنی اپنی زبان سے محبت بھی چین کی ترقی کی وجہ ہے۔
چین کے تمام لوگ بشمول افسران ، مزدور سب مل کر ایک ہی جیسا کھانا کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی ملک جاتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ چینی مصنوعات بھی لے آتے ہیں تاکہ دنیا کو چین کی مصنوعات سے متعارف کروایا جاسکے۔ چین میں چوری کی سزا موت ہے۔ چور کو سر میں گولی ماری جاتی ہے اور گولی کا معاوضہ اس کے ورثا سے وصول کیا جاتا ہے۔ جب تک ورثا معاوضہ نہ دیں لاش نہیں لے جاسکتے۔چینی لوگوں کا قول ہے کہ اگر آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو مکئی لگاؤ۔ اگرتم دس سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو درخت لگاؤ۔ اگر تم صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو لوگوں کی تربیت کرو اور تعلیم دو۔ جنرل ایوب خان کے دور میں واہ آرڈنینس کمپلیکس کی تعمیر کی گئی تو چین کے ایک وفد نے دورہ کیا اور انہوں نے دورے کے دوران عمارت کی چھت کو ٹپکتے ہوئے پایا۔ میزبان نے معذرت خواہانہ رویہ کرتے ہوئے کہا کہ عمارت ابھی نئی نئی بنی ہے اس لیے ٹپک رہی ہے تو چین کے ایک رکن نے ہنستے ہوئے کہا کہ شروع شروع میں ہماری عمارتیں بھی ٹپکتی تھیں لیکن ہم نے ایک ٹھیکیدار کو گولی مار دی، اس کے بعدچھت نئی ہو یا پرانی کبھی نہیں ٹپکتی۔ رچرڈ نکسن ایک مرتبہ چینی وزیراعظم چو این لائی سے ملے اور انہیں ایک تصویر دی جس میں چو این لائی اپنے گھر کے لان میں بیٹھ کراخبار پڑھ رہے تھے اور اخبار کی سر خیاں بھی واضح نظر آ رہی تھیں۔ چو این لائی نے پوچھا آپ نے یہ تصویر کیسے کھینچی ؟ رچرڈ نکسن نے فخریہ انداز میں کہا کہ ہمارے پاس ہنڈرڈ بلین ڈالر کی سیٹلا ئیٹ ٹیکنالوجی ہے جو صرف ہمارے پاس ہے، یہ تصویر ہم نے اسی سے کھینچی ہے۔ چواین لائی مسکرا کر اٹھے، اپنی میز پر گئے اور ایک تصویر اٹھائی اور صدر نکسن کو پیش کر دی۔ اس تصویر میں صدر نکسن وائٹ ہاوس میں بیٹھکر سی آئی اے کی کنفیڈنشل(خفیہ) فائل پڑھ رہے تھے۔ یہ تصویر دیکھ کر نکسن کا رنگ فق ہو گیا اور اس نے پوچھا کہ آپ نے یہ تصویر کیسے کھینچی تو چواین لائی نے جواب دیا کہ آپ جو کام ہنڈرڈ بلین ڈالرکی ٹیکنالوجی سے کر رہے ہیں ہم نے ہنڈرڈ ڈالر کی ٹیکنالوجی سے کر دیا۔ صدر نکسن نے وضاحت مانگی تو چواین لائی نے کہا کہ ہم نے وائیٹ ہاوس کے ایک ملازم کو ہنڈرڈ ڈالر دے کر یہ تصویر حاصل کی ہے۔ چین کے 97 فیصد نوجوان چین ہی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں چین کا تعلیمی نظام اور تعلیمی اخراجات دنیا میں سب سے کم ہیں۔چین میں اس وقت 65ہزار کے لگ بھگ ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور صرف 40ہزار کے قریب شنگھاہی میں ہیں۔ پاکستان کیساتھ ایساکچھ نہیں۔یہاں کا تو باواآدم ہی نرالا ہے۔ جس ٹہنی پہ بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں۔ اس کی بربادی میں کسی بھی طبقے نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نائب قاصد سے لے کرسیکریٹری تک یہ وہ جونکیں ہیں جو عوام الناس کا خون چوس رہے ہیں۔ سب عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ سیاستدان توبھلائی کے کام کے علاوہ سارے کام سرانجام دیتے ہیں۔سیاسی حکومتیں تھیں یا پھرفوجی ملک کا دیوالیہ نکال دیا۔ یہ لوگ ملک کا کم اپنے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔ پچھلے سترسالوں سے ریورس گئیر لگا ہوا ہے۔ جس طرح چین نے بتدریج ترقی کی ہے اس طرح پاکستان نہ کرسکا۔ انہوں نے ایک قوم کی صورت میں رول ماڈل کا کردار ادا کیا۔ وہ مرحلہ وائز آگے بڑھتے گئے۔ وہاں ادارے ڈویلپ ہوئے جبکہ پاکستان میں لوگ ڈویلپ ہوئے۔ آج وہ زندگی کے ہر شعبے میں ترقی یافتہ ہیں۔ جبکہ ہمارے شعبوں کا کوئی سر پیر نہیں۔ وہاں کرپشن پر نو کمپرومائز جبکہ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہی کرپشن ہے۔ وہاں تو شاذ ہی کوئی حکومتی لیول پر کرپشن اور بدیانتی کا کیس سامنے آتا ہے۔ یہاں تو پوری حکومتی مشینری چاہے وہ سول ایڈمنسٹریشن یا سیاسی سیٹ اپ سب عدالتوں کے سامنے سرنڈر کیے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف بڑے بڑے چارجز لگے ہوئے ہیں۔معیشت کے حالات دگرگوں ہیں۔ برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جس ملک کی اشرافیہ ہی چور ہو وہ ملک دیوالیہ نہ ہوں تو اور کیا ہوں۔ ایک وقت تھا:جب 50سال قبل پاکستان نے ترقیاتی کاموں کے لیے جرمنی کو 12کروڑ روپے قرضہ دیا تھا، ساٹھ کی دہائی میں یہی چینی حبیب بینک پلازہ کراچی کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ کوریا پانچ سالہ معاشی منصوبے پاکستان سے لے کے گیا تھا۔ ویت نام اور بنگلہ دیش پاکستان سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ لیکن اس وقت کے بعد یوں ہوا کہ ملک کی باگ ڈور نالائق لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ جنہیں ملک کی کم اپنی فکر زیادہ ستانے لگی۔ پہلے بدلا ہوا پنجاب بنانے لگے پھر پاکستان کو بدلا اور اور اس کے بعدہر پاکستانی شہری کو لاکھوں کا مقروض کر دیا۔ صرف تین سالوں میں ریکارڈ قرضہ لے کر ورلڈ ریکارڈ بنا ڈالا۔
٭٭٭٭