ردّ قادیانیت ’’جناب مجید نظامی کی وجہ بُلندیِ درجات،،

جناب مجید نظامی صاحب مرحوم و مغفور کے اُوصافِ زاہدانہ میں سب سے بڑھ کر جو وصف تھا اور یہ خاصیت و خوبی ان کو دوسروں سے یکسر ممتاز بنا دیتی تھی اُنہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوٹ کر محبت تھی اور یہ عاشقی ہمیشہ بے چین کر دیتی تھی، حتیٰ کہ وَصلِ محبوب حقیقی واحد لاشریک سے قبل تک بھی وہ اِمسال معمول کے مطابق دیار یار کی دید کی تڑپ دِل شکستہ میں دبائے رہے اور اس کی گواہ ان کی بیٹی محترمہ رمیزہ نظامی ہیں۔ عقیدہ ختمِ نبوت پر عملاً کام کرنے والے کارکنان و خادمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر متفق ہیں کہ ثنائے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر وہ وصلپحہ یا وصلی بھی وصول کرتے تو اس کی اشاعت کا روزنامہ نوائے وقت میں ضرور اہتمام کرتے، راقم کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا۔ چونکہ میں باقاعدہ روزنامے کا کالم نویس تھا، مگر ردقادیانیت پر جب میں نے سنڈے میگزین میں یہ لکھا بلکہ منظر کشی کی کہ لوگوں کا ہجوم اسقدر زیادہ تھا کہ منٹو پارک میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی اور وہاں ایک لعین شخص کئی دنوں سے مسلمانوں کو مناظرے کا چیلنج دے رہا تھا، مگر اس کے مدِمقابل ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا، عاشقان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بالخصوص اور عام مسلمانوں میں بھی یاس و نااُمیدی کی جھلک نمایاں تھی۔ دراصل جو بھی مرتد نبوت کا دعویٰ دار ہوتا ہے ، یا کوئی بھی جھوٹا مسیح موعود ہونے کی بڑ ہانکتا ہے ، تو اس کے ساتھ شیطان مردود کی محنت و کاوش، اُس کی تائید اور ابلیس کا تعاون حاصل ہو جاتا ہے۔ عام مسلمان تو لمبی داڑھی، دھاری دار جبہ و دستار اور اس کے ساتھ چند خوشامدی خادمین کو دیکھ کر بلاسوچے سمجھے مریدین کی صف میں شامل ہونے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں، چاہے وہ پھونک مار پولیس کا سپاہی ہی کیوں نہ ہو۔ تعلیماتِ اسلامی اور اس کی حقانیت کے بالکل برعکس لوگوں کا سکولوں کو جلانا، حافظ قرآن کو الائو میں ڈال کر دہکانا اور شیطانی ترغیبات اور غلط پند و نصائح کے واویلے سے متاثر ہو کر ایک دوسرے کے گھروں کوجلا دینا تو ہماری آنکھوں دیکھی مثالیں ہیں۔
قادیانیوں کی مناظرے کی ڈھول بجا کر منادی کی صورت میں دعوت مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کر رہی تھی، اُن دنوں حضرت شیر محمد شرقپوریؒ لاہور تشریف لائے ہوئے تھے ا ور اندرون شہر رہائش پذیر تھے انہوں نے بھی قادیانیوں کا یہ اعلان سنا، اسی سوچ و بچار اور اُدھیڑ بن میں شیر محمد شرقپوریؒ اونگھنے لگے، ان پہ طاری اس کیفیت میں خاتم النبین آقائے نامدار، رحمت العالمین ، فخرِ موجودات مالکِ کونُ و مکان صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جلالی کیفیت میں تشریف لائے، اور حکم دیا کہ کاذب دعوے داروں کے سامنے خاموش کیوں ہو، جائو اور ان جھوٹوں کے ساتھ مناظرہ کرو، مناظرے کا وہ آخری دن تھا مُسرت اور شادمانی کے نقارے قادیانیوں کے دلوں میں بجنے شروع ہو گئے تھے، اُن کی حالت دیدنی تھی اور وہ مسرت سے پُھولے نہیں سمائے جا رہے تھے کہ اچانک ان کا چیلنج قبول کرنے والا ولی اللہ اور آخری نبیؐ کے غلاموں کے غلام شیر محمدؒ سامنے آئے اور سٹیج پر چڑھ کر اس کاذب دجال سے مناظرے سے قبل یہ چیلنج کیا کہ اگر رب کی رضا تمہارے ساتھ ہے اور تم سچے ہو تو میں تین باتیں تین شرائط کی صورت میں رکھتا ہوں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ راوی دریا جو شاہدرے کے ساتھ بہہ رہا ہے وہ اپنی جگہ چھوڑ کر منٹو پارک کے ساتھ بہنا شروع ہو جائے، دوسری شرط یہ کہ ایک بالکل کنواری اور باکرہ لڑکی لائی جائے، وہ لڑکی یہاں خیمے میں رہے اور وہ کنواری یہاں خیمے میں بچہ جنے، تیسری اور آخری بات یہ کہ ہم دونوں میں سے جو سچا ہو وہ شیر بن جائے اور دوسرے جھوٹے کو کھا جائے۔
قادیانی بولا پہلے آپ شروع کریں، اس کا اتنا کہنے کی دیر تھی کہ حضرت شیر محمدؒ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعی شیر بننا شروع ہو گئے اور جوں ہی ان کی گردن پہ شیروں والے بال آنا شروع ہوئے تو فوراً ان کے خلیفہ نے حضرت شیر محمدؒ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور درخواست کی کہ حضرت شریعت، شریعت کا خیال رکھئیے۔ یہ منظر دیکھتے ہی جھوٹے چیلنج کرنیوالے نے سٹیج سے چھلانگ لگائی اور سرپٹ دوڑ لگا دی اور لوگ دیکھتے ہی رہ گئے، ایسے بے شمار واقعات ہیں مگر جن کے دلوں پہ اللہ مہر لگا دے، اور آنکھوں پہ پردے ڈال دے وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے عاری کر دئیے جاتے ہیں۔ جناب مجید نظامی صاحب، وقت کے بہت پابند تھے اور ان کے خدمت گزار منیر کو یہ ہدایت تھی کہ کسی کو بھی اُن کے کمرے میں اندر بھیجنے سے پہلے وہ وقت کا خاص خیال رکھنے کی تائید کرتے اور پھر اندر آ کر اُنہیں اپنی شکل دکھاتے کہ وقت ختم ہو گیا ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ میرے گھر فون بھی کر لیا کرتے تھے اور مجھے یہ بھی سہولت تھی کہ کالم دفتر کی بجائے انکے گھر بھیج دیا کروں، اس بات کا خدا گواہ ہے کہ میرا کالم خواہ کسی اخبار میں شائع ہو، میں کچھ نوافل جناب مجید نظامی کے ایصال ثواب کے لیے بھی پڑھتا ہوں۔
خُود دار باغیرت اور باضمیر صحافی جناب مجید نظامی کی زندگی اقبال کے اس شعر کی عکاس تھی کہ…؎
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
ناچیز جہان مہ و پرویں ترے آگے!
وہ عالمِ مجبور ہے، تو عالم آزاد !

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...