یا اللہ امام الانبیاء کے ساتھ تو تیرا برتائو ہی یکتا ہے کہ تجھے تو اتنا بھی گوارانہ ہوا کہ آپؐ کو راعنا یعنی ہماری طرف توجہ دیجئے کہہ کر مخاطب کیا جائے کیونکہ تیرے قرآن ہی کے اس لفظ کی ادائیگی میں بدبخت یہودی اپنے خبثِ باطن کی تسلی کرتے اور اسے ذرا لمبا کر کے راعینا کہتے جس کا مطلب ہمارا چرواہا (نعوذ باللہ) بنتا۔ تو نے فوراً مومنین کیلئے حکم دے دیا۔
’’اے ایمان والو تم راعنانہ کہو بلکہ انظرنا کہو اور سنتے رہو کہ کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (ابقرہ)
ایک طرف تیرا یہ اعلان ہے جو تو اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سورۃ آلِ عمران کی آیت 31 میں کراتا ہے۔ ’’کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو‘ میری راہ چلوتا کہ محبت کرے اللہ تم سے اور بخشے گناہ تمہارے اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان۔‘‘ (آل عمران)
کتنا واضح اعلان ہے اس کے سمجھنے کے لئے غیر معمولی دانش و خرد کی ضرورت نہیں۔ ہمیں فارمولا بتا دیا گیا ہے اللہ کی محبت کا معیار بتا دیا کہ اس کے لئے ایک ہی کسوٹی ہے کہ تم پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی کس حد تک اتباع کرتے ہو۔ یقیناً جو شخص حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی راہ پر چلتا ہے آپ کی لائی ہوئی روشنی کو مشعلِ راہ بناتا ہے وہ اسی قدر اللہ سے محبت کرنے کے دعویٰ میں سچا ہے اور جتنا دعویٰ میں سچا ہو گا اتنا ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کی پیروی میں مستعدد مضبوط پایا جائے گا اور اس کے انعام کو پھر اللہ نے چھپا کر رکھا ۔ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ ایسا کرنے والے سے خود اللہ تعالیٰ محبت کرے گا۔ اللہ کی محبت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی برکت سے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور وہ اللہ کی مہربانیوں اور عنایات کو اپنی زندگی ہی میں سمیٹے گا اور ساتھ ہی سخت تنبیہ کی گئی۔
’’کہہ دیجئے حکم مانو اللہ کا اور رسولؐ کا اور پھر اگر یہ منہ پھیر لیں یا اعراض کریں تو اللہ کو کافروں سے محبت نہیں ہے۔‘‘ (آل عمران) یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہ ماننے والوں کو کافر قرار دیا جا رہا ہے اب اس رسولؐ کے حکم کو ماننے کا تو یا اللہ تو نہیں کہہ سکتا اور وہ بھی اپنے ساتھ ملا کر جس پر بہکے ہونے کی تہمت لگائی جا رہی ہو (استغفراللہ)۔ بہکے ہوئے کی اطاعت نہ کرنے پر کفر کی مہر کیسے لگ سکتی ہے۔ بہکے ہوئے کا راستہ اللہ کا راستہ کیسے ہو سکتا ہے اور اللہ اپنی ہی اطاعت پر بھی کیوں اکتفا نہیں کر رہا کیوں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو لازمی قرار دے رہا ہے۔ ان کی اطاعت کرنے والوں کو اپنی محبت کرنے کا یقین دلا رہا ہے۔ جس کوڑھ مغز کو اتنی سیدھی سادی بات سمجھ نہیں آئی اس نے مسلمانوںکی کیا رہنمائی کرنا ہے‘ کیا تربیت کرنی ہے کیا تبلیغ کرنی ہے۔ ابھی سورۃ آلِ عمران ختم نہیں ہوئی کہ سود کی ممانعت کے حکم کے ساتھ اللہ سے ڈرنے اور خود کو آتشِ دوزخ سے بچانے کا اعلان کر کے کہا گیا ہے اس سے تمہارا بھلا ہو گا اور ساتھ ہی اللہ کا حکم مانو اور رسول کا تا کہ تم پر رحم ہو (آلِ عمران 132) یہ جو اللہ تعالیٰ اطیو اللہ کے ساتھ اطیو الرسول کہہ رہا ہے اس سے مراد رسول کا حکم ماننا بھی فی الحقیقت خدا کا حکم ماننا ہی ہے۔ کیونکہ اسی نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم پیغمبرؐ کا حکم مانیں اور ان کی پوری اطاعت کریں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس کی بڑی خوبصورت تشریح کر دی ہے۔ کہتے ہیں ’’جن احمقوں کو اطاعت اور عبادت میں فرق نظر نہ آیا وہ اطاعتِ رسول کو شرک کہنے لگے چونکہ جنگِ احد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تھی اور فتح کو شکست میں بدل کر آئندہ کے لئے ہوشیار کیا جا رہا ہے کہ خدا کی رحمت اور فلاح و کامیابی کی امید اسی وقت ہو سکتی ہے جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چلو۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ احد میں شکست کی وجوہ اس طرح بیان کی ہیں کہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سرتابی کی سزا فوراً مل رہی ہے۔ فتح کو شکست میں بدل دیا گیا اور قرآن میں یہ آیات آ گئیں۔’’یہ بیان ہے لوگوں کے واسطے اور ہدایت اور نصیحت ہے ڈرنے والوں کو اور سست نہ ہو غم نہ کھائو تم پھر غالب آئو گے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران)
یا اللہ اپنی ذات پر ایمان لانے کے دعوے داروں کے بارے میں تو نے کتنا واضح اعلان کیا تھا۔’’لوگوں میں کچھ ایسے بھی جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور روزِ قیامت پر وہ ہرگز مومن نہیں۔‘‘ (البقرہ)
اسکے بعد سورۃ النور میں تو تیرا اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرانے کا ایسا حوالہ سامنے آ جاتا ہے۔ کند ذہن سے کند ذہن بھی تیرے منشا و مرضی کو سمجھ لیتا ہے۔ پہلے تو وہی انداز اختیار کیا گیا۔’’آپ کہہ دیجئے حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ پھر اگر تم منہ پھیر لو گے تو اس کے ذمہ تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کر دیا گیا ہے اور تم پر اس کی جواب وہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے۔ ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کا کہنا مانو گے ان کی ماتحتی کرو گے اور رسول کے ذمہ صرف صاف طور پر پیغام دینا ہے‘‘۔ (النور)
یا اللہ تو نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا ماننے کی جو تاکید مزید کی ہے وہ اس اعتبار سے مثالی ہے کہ پہلے حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول اور پھر آگے اس بات پر زور کہ ہدایت تب ہی ملے گی جب رسول کا کہنا مانو گے۔ یہاں تو نے اپنی بات نہ کر کے ہدایت ملنے کے مزاج اور تیرے منشا کا بہت ہی واضح پتہ چل جاتا ہے۔ اس آیت کے ایک آیت بعد پھر تو نے وہی انداز اختیار کیا۔’’اور قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکٰوۃ اور حکم پر چلو رسول کے تا کہ تم پر رحم ہو۔‘‘ (النور)
یہاں بھی اطیو اللہ واطیو الرسول کی بجائے اطیوالرسول کہا گیا ہے۔ یا اللہ سارے قرآن میں شاید ایک بھی جگہ ایسی نہیں جہاں تو نے صرف اپنی اطاعت کرنے یا اللہ کا حکم ماننے کی بات کی۔ ہر جگہ اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو مگر یہاں دوبار تو نے صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے کو کہا۔ ایک جگہ حکم ماننے سے ہدایت ملنے کا انعام دے دیا تو دوسری بار اس اطاعت کے نتیجہ میں حکم ماننے والوں پر رحم کرنے کی بات کی اور یہ ابلاغ کرا دیا کہ ہدایت حاصل کرنے اور میرے رحم کا حقدار بننے کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا اور اتباع کرنا لازمی ہے۔