معزز قارئین!۔ اہم خبر یہ ہے کہ ’’ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت آٹھویں بار ’’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ‘‘ کا دو سال کے لئے ’’ غیر مستقل ‘‘ (Non-Permanent)رُکن منتخب ہوگیا ہے، اِس پر تو، مَیں اِنشاء اللہ !۔ کل لکھوں گا لیکن، قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہُوا اور جو کچھ ہو رہا ہے ، اُ سے جمہوریتؔ تو کہا جاتا ہے لیکن،جمہور ؔ (عوام) جنہیں ’’عوام کالانعام‘‘ ( یعنی۔ ڈھور ڈنگر) سمجھا جاتا ہے ۔
ہمارے یہاں ’’ کلاسیکی موسیقی‘‘ (Classical Music)سے مُراد قدیم ہندوستانی موسیقی ہے ۔ کلاسیکی موسیقی ہندو مذہب میں عبادت کا حِصّہ ہے ۔ہندودیو مالا کے مطابق ’’ وِشنو دیوتا کے اوتار بھگوان ( راجا ) رام چندر کے درباری گائیک براہمن زادہ رام دینوؔ تھے ۔ چشتِیہ سِلسلے کے ولی حضرت نظام اُلدّین اولیائؒ کے مُریدِ حضرت امیر خسروؒ (1243ء ۔ 1325 ئ) ، فارسی ، ہندی ، برج بھاشا کے شاعر اور ’’ راگ وِدیا‘‘ ( علمِ موسیقی) میں کامل تھے ۔ اُنہوں نے ایرانی اور ہندوستانی موسیقی کی آمیزش سے کئی راگ تخلیق کئے اور راگنیاں بھی ۔ ستار امیر خسرو ؒ کی ہی ایجاد ہے ۔مُغل بادشاہ جلال اُلدّین اکبر نے اپنے دربار میں ’’ شہنشاہِ موسیقی‘‘ (میاں تان سین) کو ’’ سروں کا سِپہ سالار ‘‘ کا خطاب بھی دے رکھا تھا۔بھارت میں اب بھی کلاسِیکی گلوکاروں اور موسیقاروں کو ’’ بھگوان کا روپ‘‘ سمجھا جاتا ہے ۔
’’اُستاد بڑے غلام علی‘‘
معزز قارئین!۔کئی سال پہلے آل انڈیا ریڈیو پر مَیں نے اُستاد بڑے غلام علی خان کا انٹرویو سُنا تھا۔ اُن سے پوچھا گیا تھا کہ ’’ آپ مسلمان ہیں ، پاکستان کیوں نہیں گئے؟‘‘۔ تو خان صاحب نے کہا تھا کہ ۔ ’’ ہم ایک بار پاکستان گئے تھے ۔ سرحد پر پہنچے تو سرحد پر پاکستانی اہلکاروں نے آپس میں کہا کہ ۔’’ لو جی !۔ میراثیوں کا گروہ بھی آگیا‘‘۔ اُستاد بڑے غلام علی خان نے کہا کہ ۔ ’’ کچھ دِنوں ہم بھارت واپس آگئے، یہاں ہمیں بھگوان کا روپ سمجھا جاتا ہے ‘‘۔ ’’ پٹیالہ گھرانہ‘‘ کے عالمی شہرت یافتہ ،موسیقار اور گلوکار،اُستاد امانت علی خان کا 82 سال کی عُمر میں انتقال ہُواتو، اُن کے چاہنے والے اب بھی اُنہیں یاد کرتے ہیں ۔
کلاسِیکی گلوکاروں اور موسیقاروں کے گھرانے اُن کے "School Of Thought" ( مکتبِ فکر ) کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ’’گوالیارگھرانا ‘‘ ۔ ’’متھرا گھرانا ‘‘ اور ’’ شام چوراسی گھرانا ‘‘ کی طرح ’’ پٹیالہ گھرانا ‘‘ بھی ایک گھرانا ہے ۔ 1947ء میں اُستاد فتح علی خان کے بزرگ اور خاندان کے دوسرے لوگ مشرقی پنجاب کی سِکھ ریاست ’’پٹیالہ ‘‘ سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ۔
’’ پاپ موسیقی ‘‘
یورپی ممالک میں عرصۂ قدیم سے ’’پاپ موسیقی ‘‘ (Pop Music) مقبول عام ہے ۔ دراصل اِس موسیقی کا نام "Popular Music" (مقبول عام موسیقی) تھا لیکن، کیا کِیا جائے کہ ’’ ہندی زبان میں پاپؔ کے معنی ہیں(گُناہ ، عذاب، جُرم، بدی ، بُرائی) ۔ اِسی لئے ہمارے یہاں ’’ کلاسیکی موسیقی‘‘ کے اساتذہ اور اُن کے شیدائی "Pop" کو ’’پاپ‘‘ ہی سمجھتے اور کہتے ہیں ۔
’’کلاسیکی جمہوریت‘‘
مصّورِ پاکستان علاّمہ اقبالؒ اپنے پاکستان میں ’’ کلاسیکی جمہوریت‘‘ (Classical Democracy) کا رواج چاہتے تھے ۔ جب وہ وکالت کرتے تھے تو اپنی ضرورت کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے ۔ باقی مقدمات اپنے دوست ، وُکلاء اور شاگردوں میں تقسیم کر دِیا کرتے تھے ۔ قائداعظمؒ نے گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام وقف کردِیا تھااور اپنے شانہ بشانہ قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والی اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔
نئی دہلی کے "Diplomatic Enclave" ۔ چانکیہ پوری ۔ (چانکیہ کا دروازہ ) میں جِس بنگلے میں پاکستان ہائی کمشن کے دفاتر ہیں وہ ، بنگلہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم ’’ قائدِ ملّت‘‘ خان لیاقت علی خان ؒ کی ملکیت تھا جو، آپؒ وہ بنگلہ حکومتِ پاکستان کو تحفے کے طور پر دے دِیا تھا ۔ 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں جب ،قائدِ مِلّت ؒ شہید ہُوئے تو اُن کی جرابیں پھٹی ہُوئی تھیں۔
’’پاپ جمہوریت‘‘
معزز قارئین!۔ وزیراعظم لیاقت علی خانؒ کے بعد ’’ پاپ جمہوریت ‘‘ (Pop Democracy) کا دَور شروع ہُوا۔ ’’ پاپؔ جمہوریت ‘‘ کی رسّی دراز ہوتی رہی ۔ ’’ کورونا وائرس‘‘ (Coronavirus)کا ’’ عذابِ الیم‘‘ نازل نہ بھی ہوتا تو، بھی جمہوریتؔ اور جمہورؔ کے وہی حالات ہوتے جو، جنابِ عمران کا دورِ اقتدار شروع ہونے سے پہلے وطن عزیز میں جاری و ساری تھے ۔ ماہرین ِ معیشت نے ہماری جمہوریت کو ’’ پاپ جمہوریت‘‘ تو نہیں کہا لیکن، ٹھوک بجا کر یہ بیان دِیا کہ ’’ صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں 40 فی صد عوام غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے ، صدر آصف زرداری کے دَور میں اُن کی تعداد 50 فی صد ہوگئی اور پھر تیسری مرتبہ منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کے دَور میں 60 فی صد ۔ یہ الگ بات ہے کہ’’ وزیراعظم عمران خان کئی بار یہ فرما چکے ہیں کہ ’’ پاکستان میں 20 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور مَیں اُن کا مستقبل روشن کردوں گا‘‘۔
معزز قارئین!۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی تو، مجبوری تھی کہ ’’ اُن کے "N.R.O" کے طفیل ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی پارٹیوں کو پھر، سیاست میں کُھل کھیلنے کا موقع ملا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ’’ وزیراعظم عمران خان کس کس کو "N.R.O" دے سکیں گے؟ لیکن ، مفلوک اُلحال عوام تو، یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ’’ پاپ جمہوریت‘‘ کب ختم ہوگی؟ اور کب ’’ کلاسیکی جمہوریت‘‘ کا سورج طلوع ہوگا؟‘‘ ۔
18-06-2020