سامنے خبر دھری ہے کِسی دوا ساز ادارے کی نہ کِسی حکومت کی ۔ "عالمی ادارہ صحت" کی بات کہ "کرونا "کے جانی نقصان کم کرنے کی کوئی دوا موجود نہیں ۔ ہاں ویکسین کی تیاری میں پوری دنیا جُتی ہوئی ہے۔ ابھی6,4"ہزار" کا انجکشن قوم3,4"لاکھ" میں خریدنے کی تکلیف سہہ رہی تھی کہ نئی دوائی کی برقی چینلز پر رونمائی کر دی۔ جب دوا ایجاد نہیں ۔ اِس کے بھی ابھی ٹرائل ہونگے تو کیا ضرورت تھی بات کرنے کی ۔ اب بیماری کاٹتی قوم اِس طرف دوڑ پڑے گی۔ کیا ضروری نہیں کہ ہم ڈبل سواری پر پابندی جیسے اقدام کرنے ۔ ایجاد کے بِنا موجد بننے کی بجائے ہسپتالوں کی تصویر بہتر بنائیں ۔ ہم نہیں حالات گواہ ہیں کِسی چیز کو غائب کرنا ہوتو اعلانیہ اظہار کردو۔یہی ہوا کل سے دوائی کی قلت ہے ۔ابھی تو انجکشن کی تعریف کا خمیازہ کمر توڑ رہا تھا ؟
"قابل احترام وزیراعظم صاحب" چیک کریں ۔ کہیں کِسی نے کِسی کو فائدہ تو نہیں پہنچایا ؟" اسلام آباد ہائیکورٹ" کا فکر انگیز فقرہ کہ "وزارت صحت عدالت اور عوام کے ساتھ کھیل رہی ہے"۔ یہ صرف ڈاکٹرز کا معاملہ نہیں ۔واقعی ہی عوام رُل رہے ہیں ۔ نہیں بُھولے الفاظ قابل صد احترام عدالت عظمیٰ کے۔"کہ حکومت پریس کانفرنس پر ہے"۔ اتنے وینٹی لیٹر ۔ اتنی دوائی ۔10" ہزار بیڈز"۔ ذاتی مشاہدات فیصل آباد کا مریض لاہور آیا ۔ ساری رات مختلف ہسپتالوں کی خواری ۔ سرکاری کیا نجی ہسپتال میں "ایک بیڈ" نہ مل سکا۔10" ہزار بیڈز" یقینا ہونگے شاید "چاند" پر۔ "وزیر اعظم " ضرور تحقیق کروائیں کہ انجکشن کی بابت پالیسیوں کو کیوں بار بار بدلا گیا ؟ باتوں ۔دعوؤں سے ہٹ کر دیکھیں ۔ زمینی حقائق بہت مختلف مگر از حد تکلیف دہ ہیں۔ ایک وقت کی روٹی نہ کھا سکنے والے لوگوں کو ہوس پرست ، منافع خور مگر مچھوں کے مافیا کی توند کا حصہ نہ بنائیں ۔ نجی لیبارٹریز، ہسپتال کے ریٹ ضرور گرفت میں لائیں ۔
چند مشہور ہوئی جڑی بوٹیاں، عام حالات میں کوئی دیکھنا بھی پسند نہ کرے ۔ اُن کے ساشے بنا کر بیچنے والوں، مشورہ دینے والوں کو ضرور جوابدہ بنایا جائے ۔ پوری قوم خوف، وہم کا شکار ہے۔ اِس لمحہ بنتا ہے کہ قانون سازی کریں ۔ آئینی طور پر سزائیں دیں ایسے خود ساختہ حکیموں ۔ بغیر ڈگری کے ڈاکٹرز کو قانون کی عملداری ضرور ہے۔ پورا ملک دیسی ٹوٹکوں پر چل رہا ہے چاہے تعلق دوائی کھانے سے ہے یا پھر کرونا سے نمٹنے بابت ۔ اقدامات کہ چلو اِس دوائی نے اثر نہیں کیا فلاں کھا لو۔ یہ قدم کرونا کے پھیلاؤ کو نہیں روک سکا۔ فلاں قدم اُٹھالو۔ ضرورت عمل درآمدکی ہے اُن قوانین پر جو پہلے سے موجود ہیں ۔ ذخیرہ اندوزی ۔ قلت ۔ ناجائز منافع۔ آج دل سے ٹھان لیں گھنٹوں میں" مافیا" زیر ہوجائے گا ۔ہاں مصلحت سے ہٹ کر سوچیں تو؟ "تفتان "غلطی" کرونا "کے پھیلاؤ کا نکتہ آغاز بنی ۔ پھر بیرون ممالک سے آزادانہ آمد ۔ سب نے بلنڈرز قرار دیا۔ بیماری کے عروج پر پہنچ جانے کے باوجود ہم ابھی بھی انھی غلطیوں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ ظاہر ہے جو باہر ہیں ۔ کسی نہ کسی دن تو واپس لانا ہے۔ اِس سلسلہ میں دو کام ضرور کر لیں۔تھرمل گن کافی نہیں ۔ ہوسکتا ہے جن کو بخار ہو ۔ بچنے کے لیے دوا کھا کر اُترے ہوں ۔ واپس ضرور لائیں پر14" دن "انھی کے خرچ پر قرنطینہ لازمی کیا جائے ۔ دوسرا وہ لوگ جو روزگار ختم ہونے باعث واپس آنا چاہ رہے ہیں اُن کے معاملہ میں" وزیر اعظم" عرب ممالک سے بات کریں ۔ یہاں تو پہلے ہی معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ بیرونی دنیا میں آپ کی پہچان ہے۔ مقام ہے آپ اِس کا بھرپور فائدہ اُٹھائیں ۔ قرض ریلیف سلسلہ کی کاوشیں رنگ لائی ہیں تو یقینا" پاکستانی مزدوروں" کا درد بھی ضرور رنگ دِکھائے گا۔ارکان اسمبلی کی مراعات ضمن میں خبریں ہیں ۔ اٰیسی خبریں صرف گرم نہیں سچی بھی ہوتی ہیں ۔ تاریخ کے اس گھمبیر بحران کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں ۔ پنشنرز کی پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا باعث قرار دیا۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ۔ حالانکہ یہ وہ طبقہ ہے جس کو تنخواہ ۔ پنشن ٹیکس کاٹنے کے بعد وصول ہوتی ہے ۔ مزید براں مسلح افواج نے اِس مرتبہ بھی اپنا بجٹ منجمد کر دیا اِن حالات میں کہ شاطر دشمن مسلسل وار کر رہاہے۔ دوسری طرف کچھ گروپ گھناؤنی وار داتیں کرنے میں مصروف ہوں۔" فوج" نے اتنی بڑی قربانی دیدی تو حکومت بھی اِس فیصلہ کو منجمد کر دے۔ قومی و صوبائی میزانیوں میں صحت اور تعلیم کی مد میں بھاری فنڈز مختص کرنا واقعی اچھا فیصلہ ہے۔ فنڈز استعمال کرنا کارنامہ ہوتا ہے اور ہوگا ۔ مختص کرنا نہیں ۔ مختص تو قیام پاکستان سے ہوتے آرہے ہیں ۔ پچھلے سال بھی ہوئے تھے ۔ کون بتائے گا کہ کہاں خرچ ہوئے ؟ صحت اور تعلیم کی ترقی سامنے ہے۔ یہ ایسی ترقی ہے جو خود بولنے ۔پھرنے سے قاصر ہے۔ " وزیر اعظم صاحب" آئین میں ترمیم کر کے قانون بنا دیں کہ ہر سالانہ بجٹ کے ساتھ پچھلے سال کے مختلف شعبوں کے لیے مختص پیسوں سے تکمیل شدہ منصوبوں کی تفاصیل ۔ ٹھیکیداروں کی فہرست ۔ بچ جانے والے فنڈز کی مالیت ضرور پیش ازاں بعد مشتہر ہوگی ۔ اِس فیصلہ سے بیش بہا فوائد حاصل ہونگے ۔ شفافیت کا حصول، کرپشن کا انسداد، رشوت خوری کا خاتمہ، کک بیکس کی حوصلہ شکنی " آپ ایماندار ہیں"۔ بس کر گزریں یہ فیصلہ ۔
" ماسک" لہرا کر تعلیم دیتا ۔ بات ماننے کی تلقین کرتا لیڈر ۔ کِسی ملک میں کوئی وزیر اعظم یوں قوم کو ہدایت دیتا نظر نہیں آیا ۔ عوام کی روزی کا درد قومی معیشت پر مقدم رکھا ۔ اب بھی عوام احتیاط نہیں کریں گے تو حکومت کیا کر سکتی ہے۔ اب پولیس ایسا کرے کہ جو بھی" ایس او پیز" کی خلاف ورزی کرے 4-3"گھنٹے" کے لیے دھوپ میں کھڑا کر کے پٹرول نکال لے۔ خلاف ورزی کا مرتکب موٹر سائیکل ، رکشہ کو ہاتھوں سے گھسیٹتا ہوا لیکر جائے گا تو گھر میں بھی ماسک نہیں اُتارے گا۔