خیرپور سادات ایک قدیم شہر ہے جس کی آبادی تقریبا چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے جس کی بنیاد سیر پر آئے ہوئے سید خیرشاہ نے رکھی اور انہی کے نام سے منسوب یہ شہر1935 تک ٹاون کمیٹی رہا حکام کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ شہر مسائلستان بنا ہوا ہے علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ زیرزمین کڑوا پانی ہے جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ مختلف وبائی امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں یہاں تک کہ نوزائیدہ بچے پیدائشی طور پر ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا ہیں جبکہ بڑے افراد کی بھی بہت بڑی تعداد ہیپاٹائٹس بی، سی یا کینسر جیسے موذی امراض میں مبتلا ہے ایک پرائیویٹ این جی او کے تحت خیرپور سادات میں ہیپاٹائٹس کی سکریننگ کے لیے کیمپ لگایا گیا جس میں ہر تیسرا شخص ہیپٹائٹس کا شکار نکلا محکمہ صحت کی طرف سے دیہی مرکز صحت خیرپورسادات میں لگائے گئے صحت کیمپ میں لوگوں کی بڑی تعداد جگر ،پھیپھڑے
، معدے اور دیگر کئی بیماریوں میں مبتلا نکلے محکمہ صحت کی ستم ظریفی یہ کہ ان کے علاج کے لیے کوشش کرتے لیکن مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ان بیماریوں کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات اٹھانے کی بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی گئی جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ آئے دن مختلف بیماریوں کا شکار اپنے پیاروں کے جنازے اٹھانے پر مجبور ہیں ہیپاٹائٹس کا مرض یہاں پر کرونا وائرس سے بھی زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے صرف اسی شہراور مضافات میں ہر ہفتے 3. 4 افراد کے ہیپاٹائٹس کی وجہ سے جنازے اٹھتے ہیں چالیس ہزار کی آبادی کیلئے آر ایچ سی موجود ھے مگر اس میں علاج معالجہ کی سہولیات ناپید ھیں اور دور جدید میں بھی ہسپتال میں لال پیلی گولیوں اور لال شربت سے علاج کیا جا، رھا ھے ہسپتال میں گائنی وارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر زچہ و بچہ موت کی آغوش میں چلے جاتے ھیں ٹراما سینٹر نہ ہونیکی وجہ سے شدید ایمرجنسی میں ایکسیڈینٹل مریضوں کو دیگر ہسپتالوں میں ریفر کر دیا جاتا ھے کسی بھی سنگین حادثے کے بعد مریضوں کیلئے علاج معالجہ کی کوئی خاطر خواہ سہولیات نہ ہیں الٹرا ساؤنڈ اور ای سی جی مشین بھی عرصہ دراز سے بند ھیں جنکی وجہ سے مریضوں کو مشکلات کا، سامنا ھے مشینوں کو چالو کراکے مریضوں کو، سہولیات فراہم کی جا، سکتی ھیں جبکہ صحت کمیٹی ہونیکے باوجود یہ غیرفعال ہیںخیر پور سادات اندرون شہر میں دو مندر جو کہ آثار قدیمہ کی غفلت اور عدم۔توجہی کی وجہ سے ختم۔ھو گئے ھیں اور مندروں کی کروڑوں روپے مالیت کی زمین پر علاقے کی بااثر شخصیات نے قبضہ کر کے مکانات تعمیر کر لیئے ھیں قبضہ گروپوں سے مندروں کی زمین خالی۔کراکے اسکو نیلام کیا جائے تو گورنمنٹ کو کروڑوں روپے کا، ریونیو مل سکتا ھے پورے پنجاب کی اراضی کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ھو چکا ھے مگر موضع خیر پور سادات اور، موضع مراد پور جنوبی سمیت تحصیل علی پور کے دیگر مواضعات جو کہ گذشتہ بتیس سال سے زیر اشتمال ھیں اور لوگوں کے رقبوں پر ناجائز بااثر قابضین نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اٹرو رسوخ استعمال کر کے اشتمال کے معاملے کو، التوا میں رکھا ھوا ھے قابل ذکر بات یہ ھے کہ گندم اور کپاس کی برداشت کے موسم میں پٹواری اور، قانونگو اپنے بستے اٹھا کر غریب کاشتکاروں کو، اشتمال کا جھانسہ دے کر باقاعدہ بھتہ وصول کر نکے بعد غائب ہوجاتے ہیں کئی خاندان ایسے بھی مشاہدے میں آئے ہیں جنکی تیسری نسل کو بھی اپنی زمین کا قبضہ نہیں ملا کیونکہ اشتمال کی اڑ میں انکی زمینوں پر بااثر افراد نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اہلیان علاقہ نے کمشنر ڈیرہ غازی خان اور ڈپٹی کمشنر مظفرگڑھ سے مطالبہ کیا ھے کہ ان مواضعات میں اشتمال فوری مکمل کر کے ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جائے زرعی ترقیاتی بنک نے کاشتکاروں کو، عرصہ دراز سے قرضہ دینا بند کیا ھوا ھے گذشتہ دو، سالوں سے گندم اور کپاس کی فصلوں میں مسلسل نقصان ہورہاہے کھاد اور زرعی ادویات کے ریٹس کسانوں کی پہنچ سے دور رھے ہیں۔
شہر خیرپورسادات میں دو فلٹریشن پلانٹس لگے ہوئے ہیں جس میں سے ایک سرکاری جو کہ حکام کی عدم توجہ کی وجہ سے عرصہ دراز سے خراب ہے جبکہ دوسرا ایک این جی او کے تعاون سے لگایا گیا تھا اور شہر کی آبادی کے لیے ناکافی ہے جسے خیرپورسادات کے شہری اپنی مدد آپ کے تحت چلا رہے ہیں علاقے کے لوگوں نے اسسٹنٹ کمشنر علی پور سے استدعا کی ہے کہ سرکاری فلٹریشن پلانٹ کی مرمت کرکے اسے چالو کیا جائے شہر کا شرقی حصہ پرانا سیت پور روڈ نکاسی آپ سے محروم ہے گندے پانی کی وجہ سے روڈ ناکارہ ہو چکا ہے جہاں پر ہر وقت گندا پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے روڈ پر بڑے بڑے گڑھے پڑ چکے جس کی وجہ سے کافی مواضعات گھری ڈیسی موضع تھیم موضع گازر کے علاوہ پیر چھتہ اور سیت پور کے لوگوں کو جہاں آنے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں پر مقامی آبادی بدبودار تعفن زدہ آب و ہوا کی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہیں خاص کر بچے ڈائریا کے علاوہ پیٹ کی دیگر امراض میں مبتلا ہیں موسم کی تبدیلی کی وجہ سے گندے پانی میں مچھروں کی بہتات ہے جن کی وجہ سے ملیریا اور دیگر موذی امراض پھیلنے کا اندیشہ ہے شہریوں نے اسسٹنٹ کمشنر علی پور اور ڈپٹی کمشنر مظفرگڑھ سے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک سیت پور روڈ نیا نہیں بنتا پرانے روڈ کی عارضی طور پر مرمت کرائی جائے۔