آستانہ عالیہ چورہ شریف

حضرت پیر سید محمد کبیر علی شاہ
__________________اپنے خطابات کے اختتام پر خواتین کو پردے کی تلقین کرتے
پیر احمد ثقلین حیدر چوراہی

’’اس وقت تک انسان اپنے مالک تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے دل کو صاف نہیں کر لیتا۔ جو شخص اپنے دل کو شفاف کر لیتا ہے رب اسکے دل کو اپنے نور سے بھر دیتا ہے۔ درویشوں کے دل میلے نہیں ہوتے۔ غصہ آ جانا فطری امر ہے مگر معاف کر دینا ایک خدائی راز ہے ‘‘۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو وصال سے چند روز قبل دنیائے خطابت کے شہسوار اور آسمان ِ روحانیت کے مہرتاباں حضرت پیر سید محمد کبیر علی شاہ سجادہ نشین چورہ شریف نے فرمائے تھے۔ دنیا میں رہ کر اِک شاندار زندگی بسر کرنے والے اور رَشک آمیز انداز میں دنیا سے جانے والے حضرت پیر سید محمد کبیر علی شاہ سجادہ نشین چورہ شریف نے کیمل پور (موجودہ اٹک ) کے بظاہر ایک چھوٹے سے گائوں مگر رَشک آسماں بستی ’’چورہ شریف ‘‘ میں آنکھ کھولی ۔
پیر سید حیدر شاہ اور پیر سید محمد فضل شاہ کا گُلشن ان کی آمد سے مہک اُٹھا۔ روحانی پرورش ان ہستیوں کے سائے میں ہوئی جن کی تہجد بھی کبھی قضاء نہیں ہوئی تھی۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد اپنے سفر کی ابتداء چورہ شریف سے پیدل سفر کی صورت میں قریہ قریہ نگر نگر نبی کریم ؐ کی محبتوں سے سینوں کو سرشار کرتے ہوئے دربار حضرت داتا گنج بخش پر حاضر ہوئے پھر لاہور میں قیام فرمایا۔ دس سال سے زائد عرصہ جامع مسجد محمدیہ راوی روڈ لاہور پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔
جمعیت علمائے پاکستان کے بنیادی اراکین بالخصوص خواجہ قمر الدین سیالوی، سید فیض الحسن شاہ آلو مہاروی ، علامہ شاہ احمد نورانی ، مولانا عبد الستان خان نیازی کے ساتھ مل کر تنظیم کو منظم کرنے کے لیے روز و شب محنت کی۔
انہوں نے خطابت کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور انداز میں لوہا منوایا ۔ ماحول کی مناسبت سے گفتگو فرماتے۔ کبھی اردو میں تو کبھی پنجابی زبان کو ذریعہ اظہار بناتے۔ پنجابی زبان میں زیادہ پسندیدگی ارو روانی کے ساتھ بولتے۔ اس زبان کے وہ الفاظ جو اب متروک ہو چکے ہیں۔ اُن کا استعمال بہترین انداز میں کرتے۔ الفاظ کے چنائو کے ساتھ مختلف تشبیھات، استعارات اور تمثیلات کو اپنا کر اپنا ماضی الضمیر اس حسن و خوبی کے ساتھ سمجھاتے کہ اِ ک اِک لفظ سامعین کے دل میں اترتا چلا جاتا۔ دورانِ خطابت اگر کبھی موضوع سے دور بھی نکل جاتے تو ان کے بیان کی جاذبیت اور خطابت کی ولولہ انگیزی اس کا احساس بھی نہ ہونے دیتی ۔ زبان کی سلاست اور بعض اوقات نثر میں شاعرانہ رنگ سامعین کو اپنی گرفت میں لیے رکھتا۔
اُن کا سب سے پسندیدہ موضوع محبت رسول ؐ ہوتا نبی کریم ؐ کی شانِ اقدس میں الفاظ و حروف کے موتی اس طرح پروتے کہ مجمع پر اِک سحر طاری ہو جاتا۔ لا تعداد افراد ان کے ایمان افروز خطابات سُن کر اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال لیتے۔ ایک مرتبہ کسی نوجوان نے آپ کا خطاب سُنا تو اپنی بے راہ روی کی زندگی چھوڑ کر چہرے پر سنت ِ رسول کوسجا لیا اور سر پر ٹوپی پہننا شروع کر دی۔
ایک مرتبہ آیا اور کہنے لگا کہ مجھے اپنی کوئی کرامت سنائیں ۔ یہ سن کرآپ مسکرا اٹھے اور کہنے لگے کہ اپنے چہرے اور سر پر ہاتھ پھیروجب اس نے ہاتھ پھیرا تو کہنے لگے تمہیں کچھ تبدیلی نظر آ رہی ہے تو وہ بولا جی نظر آ رہی ہے تو فرمایا بس یہی کرامت ہے۔
محافل میں اکثر کہا کرتے کہ پاکستان کا کوئی ایسا شہر نہیں جہاں جا کر میں نے اللہ اور اسکے محبوبؐ کا ذکر لوگوں کو نہ سنایا ہو۔ آپ نے اپنی زندگی میں بے شمار مساجد کا سنگ ِ بنیاد رکھا اور کہتے کہ میں تو اس کو اپنا ذریعہ نجات اور وسیلہ مغفرت سمجھتا ہوں۔
اپنے خطابات کے اختتام پر خواتین کو پردے کی تلقین کرتے۔ فرماتے کہ مغربی تہذیب کی پیروی نہ کرو۔ پاکیزگی کی زندگی کو اپنا شعار بنائو سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہرۃ سلام اللہ علیہا کی سیرت کو اپنالو پھر تمہاری گود میں اللہ کے ولی پیدا ہونگے ۔ اللہ کریم نے آپ کو بڑے شاندار حافظے سے نوازا تھا اگر کوئی شخص ایک مرتبہ مل کر اپنا نام بتاتا تو اک لمبے عرصے بعد وہ ملتا تو نام لے کر مخاطب کرتے تو وہ شخص حیران ہو جاتا اگر کوئی یہ بتاتا کہ میں فلاں گاوں سے ہوں تو آس پاس کے کئی گاؤں کے نام گنوا دیتے، حتی کہ معروف افراد کے نام تک بتا دیتے۔ اکثر سفید لباس زیب تن کرتے مگر کبھی کبھی رنگین لباس بھی پہنتے، اگر مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جاتی تو فوراً اُس کا اظہار کر دیتے کبھی کسی بات کو دل میں نہ رکھتے۔
نبی پاک ؐ کی ذات ِ اقدس سے والہانہ محبت رکھتے ۔ہم تینوں بھائیوں احمد سبطین ،حافظ احمدمصطفین حیدراور راقم کو پہلی مرتبہ حرمین شریفین لے کر گئے ،نبی کریم ؐ کی بارگاہ میں جاتے وقت گرمانے لگے میں تم تینوں کو آقاؐ کی بارگاہ میں پیش کر نے کے لئے لایا ہوں جب وقت وصال قریب آیا تو دونوں بھائیوں نے خدمت کا حق ادا کر دیا ان سے فرمانے لگے کہ اب میرا سفر ِ آخرت قریب ہے میری خاندان والوں سے آخری ملاقات کروا دو۔ جب سب مل کر جا چکے تو پھر فرمایا کہ میری پردیس والوں سے بھی ملاقات کروا دو اور ویڈیو کے ذریعے مجھ سے اور میری فیملی سے آخری گفتگو فرمائی تو چند نصیحتوں کے بعد فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بالکل صاف دل لے کر پیش ہو رہا ہوں آپ ہمیشہ درودِ پاک پڑھتے رہنا رَب مشکلیں آسان کر دے گا میں تمہیں اپنے رَب کے حوالے کر رہا ہوںاورآپس میں اتفاق سے رہنا کیونکہ اس میں برکت ہے۔ اور اس کے تین منٹ بعد کلمہ طیبہ اور درودِ پاک کی صدائوں میں عالم ِ فنا سے دارلبقاء کی جانب سفر فرما گئے۔ ۔۔

ای پیپر دی نیشن