اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ملک میں احتساب کے نام پر تباہی ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے جائیدادوں کی منی ٹریل پیش کردی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہنے کہا کہ اداروں کا رویہ میرے ساتھ درست نہیں۔ وزارت داخلہ نے پانچ سال کی بجائے ایک سال کا ویزا جاری کیا۔ ایف بی آر میں گھنٹوں انتظار کروایا گیا۔ ایف بی آر نے میری فائل بغیر اجازت کراچی سے لاہور منتقل کردی۔ جائیدادوں کی خریداری کیلئے مختلف اوقات میں سات لاکھ پاونڈ بیرون ملک منتقل کئے۔ لندن جائیدادوں کی قیمت کراچی یا اسلام آباد کے پانچ سو گز سے بھی کم ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم نے دیکھ لیا کہ آپ کے پاس اپنا موقف دکھانے کیلئے کافی مواد موجود ہے۔ جسٹس مقبول باقرنے کہا کہ ملک میں احتساب کے نام پر جو تباہی ہو رہی ہے ہو سکتا ہے اس پر کبھی فیصلہ دیں۔ کیس کی سماعت کے آغاز میں عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو ویڈیو لنک پر بیان دینے کی اجازت دے دی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کے گھر پر ویڈیو لنک انتظامات کروا رہے، دوپہر کو جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا بیان لیں گے لیکن ہماری درخواست ہے مختصر بات کی جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں اور عدالت میں اہلیہ بیان دیتے وقت مناسب الفاظ کا استعمال کریں۔ فاضل جج کی اہلیہ عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہیں۔ حکومتی وکیل فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ جوڈیشل کونسل فوجداری اور دیوانی حقوق کا فیصلہ نہیں کرتی، جوڈیشل کونسل فیکٹ فائنڈنگ فورم ہے جو اپنی سفارشات دیتا ہے، جبکہ بدنیتی پر فائنڈنگ دینے پر کونسل کے سامنے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے کیونکہ جوڈیشل کونسل کے سامنے تمام فریقین ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدلیہ پر چیک موجود ہے، کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااحتیار ہے، عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیاکہ کیا عدالت اور کونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے۔ اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل بدنیتی پر آبزرویشن دے سکتی ہے اور عدالت کو بدنیتی پر فیصلہ دینے کا اختیار ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کیا کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے؟۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، کیونکہ کونسل کے پاس ہر اتھارٹی ہے۔ اس دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت عظمی کے بدنیتی کے معاملے کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ ہے؟۔ تو فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت عظمی کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ آپ نے اس دلیل کی سپورٹ میں آرمی چیف کیس کا حوالہ کیوں دیا؟۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ آرڈر 23 کا اصول ہے درخواست عدالت کی اجازت کے بغیر واپس نہیں لی جا سکتی، کیا ریفرنس کالعدم ہو جائے تو پھر بھی شوکاز اپنی جگہ زندہ رہے گا؟۔ فروغ نسیم نے کہا کہ میری بصیرت کے مطابق یہی دلیل ہے ریفرنس کے بعد بھی شو کاز نوٹس ختم نہیں ہوتا، سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا حکم پاس نہیں کیا لیکن آرمی چیف کا مقدمہ چلا۔ جوڈیشل کونسل تمام 28 سوالات پر آبزرویشن دینے کی مجاز ہے، فروغ نسیم نے دعوی کیا کہ فاضل جج نے تحریری جواب دیکر جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کردیا، صدر مملکت کی رائے کا کونسل جائزہ لے سکتی ہے لیکن صدر مملکت کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس معاملہ میں اعتراض یہ ہے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص اور بدنیتی ہے۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ قانون کہتا ہے کہ کم معیار کے ساتھ بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے مطابق عدالت عظمی کے جج کے ساتھ کم معیار کے ساتھ کام چلایا جائے؟۔ فروغ نسیم نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 209 میں شاید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جج کو ہٹانے کی کارروائی میں شواہد کا معیار دیوانی مقدمات جیسا نہیں ہونا چاہیے؟ جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کے لئے ٹھوس شواہد ہونے چاہیئں۔ پلیز مثال دیتے ہوئے احتیاط کریں کیونکہ عدالت یہاں آئینی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کونسل نے جائزہ لے کرہی شوکاز نوٹس کیا، ریفرنس کے معاملے پر صدر کے بعد جوڈیشل کونسل اپنا ذہن اپلائی کرتی ہے، کونسل شوکاز نوٹس کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی ریفرنس کا جائزہ لیتی ہے۔ جج کیخلاف کارروائی کے لیے شواہد کا معیار کیا ہو یہ کونسل پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ریفرنس میں محض دستاویزات لف نہیں ہونی چاہیے۔ر یفرنس کے ساتھ الزام ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد بھی ہوں۔ فروغ نسیم کاکہنا تھا کہ شواہد اگر تسلم شدہ ہوں تو حقائق کا ایشو نہیں ہوتا، کسی مقدمے میں شواہد تسلیم نہ کیے جائیں تو بات اور ہے۔ کسی دبائوکے تحت کوئی مواد لیا جائے تو عدالت قبول نہیں کرتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اس مقدمے کا مواد، دستاویزات کیسے اکٹھی ہوئیں؟۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو فروغ نسیم کا دلائل جاری رکھتے ہوئے کہنا تھا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں۔ امریکہ میں چوتھی ترمیم کے مطابق شواہد کی تلاش قانونی ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں امریکہ کی چوتھی ترمیم جیسی مثال نہیں ہے، برطانیہ میں جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین آزادانہ نقل و حرکت، وقار، ذاتی عزت و تکریم کا تحفظ فراہم کرتا ہے، ہمارے ملک میں ایف بی آر، نادرا، ایف آئی اے جیسے دیگر ادارے موجود ہیں، آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے، میں گالف کلب جاتا ہوں میری تصاویر لی جاتی ہیں، یہ تو ایسے ہی ہو گا جمہوریت سے فاش ازم کی طرف بڑھا جائے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ میں فاش ازم کی بات نہیں کر رہا، یہاں بات شواہد کے اکٹھا کرنے کی ہو رہی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس سے غرض نہیں کہ پبلک ڈومین میں جائیدادیں پڑی ہیں یا نہیں، ان جائیدادوں کو ڈھونڈنے کے اختیارات کہاں سے لیے گئے، سوال یہ ہے کہ کس طرح سے پتہ چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں، آئو جائیدادیں ڈھونڈیں، آئو جائیدادیں ڈھونڈیں کا اختیار کہاں سے حاصل کیا گیا؟۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ صحافی کی طرف سے معلومات آ گئیں تو اسکی حقیقت کا پتہ چلایا گیا۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صحافی نے کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جس کا وہ سورس چھپائے، صحافی آرٹیکل یا خبر دیں تو سورس نہیں پوچھ سکتے، میری تشویش یہ ہے کہ شواہد کی سرچ کیسے کی گئی؟ یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے۔ جج چاہتا ہے کہ میری پرائیویسی بھی ہو، میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے جبکہ میں تو کہتا ہوں جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پرائیویسی کا حق محدود ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جمہوری معاشروں میں قانون ترقی کرتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ضیاء المصطفی نامی شخص کے پاس اختیار نہیں تھا کہ نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے۔ شکایت کنندہ کی درخواست میں صرف ایک جائیداد کا ذکر تھا۔ صدر مملکت کی منظوری کے بغیر کسی جج کے خلاف مواد اکٹھا نہیں ہو سکتا۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے تمام جائیدادوں کی تفصیل مختلف لنکس پر ڈال دی ہے، جج نے بھی تسلیم کیا کہ برطانیہ کی جائیداد ویب سائٹ پر موجود ہے، برطانیہ کی جائیداد کی درست معلومات کے لیے لینڈ رجسٹری کی ویب سائٹ استعمال کی جاتی ہے، ویب سائٹ سے معلومات لینے سے سکریسی کے حق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ عوام کی نظروں میں ہے، ہم ججز کو اس حوالے سے محتاط ہونا چاہیے، حکومت کی ناک کے نیچے ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں کیا ہوتا ہے کیا آپ کو علم نہیں، اس شریف آدمی کا ماضی اچھا نہیں تھا، میں احتساب عدالت کے جج کی بات کر رہا ہوں، حکومت کے پاس بڑے وسائل ہوتے ہیں لیکن اس معاملے پر عدالت کو ایکشن لینا پڑا۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ جو احتساب کے نام پر اس ملک میں ہو رہا اس پر بھی لکھیں گے، تمام کارروائی کے بعد ڈوگر کو لاکر کھڑا کردیا گیا، میں اپنی تفصیلات آرام سے نہیں لے سکتا تو ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آئیں؟۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہاکہ ایشو یہ ہے کب حکومت نے گوشوارے مانگے؟۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں کہ دھرنا فیصلے کی وجہ سے کچھ حلقے خوش نہیں، دھرنا فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نظر ثانی کے مقدمے میں دونوں ججز کا ذکر نہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ الزام ہے کہ نظر ثانی مقدمے میں جج کو ہٹانے کی بات کی گئی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ کیا دھرنے کے حوالے سے مقدمہ میں فیصلے سے آسمان گر پڑا؟۔ اگر نظر ثانی خارج ہوتی ہے تو کیا آسمان گر پڑے گا؟۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہماری سائیکی یہ بن چکی ہے ہم سچ سننا پسند نہیں کرتے، اپنا کام کرنے کی بھی آزادی نہیں دی گئی ہے۔ اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ درخواست گزار کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ مجھ پر اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور پر لگائے جانیوالے الزامات غلط ہیں اور صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینا درست نہیں ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بدنیتی میں پس پردہ مقصد ہونا چاہیے، پس پردہ ایسا مقصد جو قانون سے باہر ہو، قانون میں کچھ اقدام ہیں جو بدنیتی پر انحصار کرتے ہیں، بدنیتی میں آسانی سے نہ الزام لگ سکتا ہے نہ ثابت ہو سکتا ہے، حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی جب قانون سے باہر کام ہو گا، لگتا ہے کچھ الماری میں پڑا تھا جس کے استعمال کرنے کا انتظار تھا۔ اور وقت آنے پر نکال کر باہر رکھ دیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے جج صاحب کی اہلیہ کا موقف بھی سننا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ منی لانڈرنگ کا جرم تسلسل جرم کب ہو گا، برطانیہ اور پاکستان کی منی لانڈرنگ رجیم میں بہت فرق ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منی لانڈرنگ 2010 میں جرم تھا ہی نہیں۔ ہمارے ملک کے قانون اجازت دیتے ہیں، کرنسی کو تبدیل کروائیں، فارن اکاونٹس کے ذریعے باہر بھجوائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا بیان شروع ہوا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ السلام علیکم بیگم صاحبہ۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے خاوند سے کئی مرتبہ کہاکہ جائیدادوں کے متعلق مجھ سے کیوں نہیں پوچھا جارہا، لیکن آج موقع دینے کا بہت بہت شکریہ، آپکی شکرگزار ہوں اور ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ میرے خاوند نے مجھے کہا ریفرنس میرے متعلق نہیں ہے، میرے لیے یہ بڑا مشکل وقت تھا، میرے والد قریب المرگ ہیں، میری شادی 25 دسمبر 1980 کو ہوئی، اس دوران فاضل جج کی اہلیہ نے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ اور اہلیہ نے اپنا پرانا شناختی کارڈ بھی دکھاتے ہوئے کہاکہ میرا نام سرینا ہے،1983 میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ 21 سال بعد لندن میں جائیداد خریدوں گی، اکیس سال بعد میں نے لندن میں جائیداد خریدی، میرا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2003 میں بنا، اس وقت میرے خاوند جج نہیں تھے، میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا۔ دوسرا ویزا جب جاری ہوا وہ سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے۔ جنوری 2020 میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا۔ یہ ویزا جاری کرنے سے پہلے ہراساں کیا گیا۔ مجھے ہراساں کرنے کے لیے کم مدت کا ویزا جاری کیا گیا، اپنوں نے ایسا کیس بنایا جیسے میں ماسٹر مائنڈ کریمنل ہوں، پہلا کارڈ زائد المیعاد ہونے پر دوسرا کارڈ بنوایا، میرا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسی ہے۔ میری والدہ سپینش ہے۔ اس لئے میرے پاس سپینش پاسپورٹ ہیں، مجھے الزام دیا گیا کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا۔ جب میرا خاوند وکیل تھا تو مجھے پاکستان کا پانچ سال کا ویزا جاری ہوا۔ قاضی فائز عیسی کی اہلیہ موقف دیتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ پانچ سال کا ویزا اس وقت ملا جب میرا خاوند جج نہیں تھے۔ سرینا عیسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی۔ برطانیہ میں جائیداد کی خریداری کے لئے پاسپورٹ کو قبول کیا گیا۔ میں کراچی میں امریکن سکول میں ملازمت کرتی رہی اور ریحان نقوی میرے ٹیکس معاملات کے وکیل تھے۔ میں نے اپنے وکیل کی مشاورت کے مطابق ہی ٹیکس تفصیلات جمع کروائیں۔ ٹیکس گوشوارے کرانے پر حکومت نے مجھے ٹیکس سرٹیفکیٹ جاری کیا اور میرا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ جبکہ میرے وکیل کا کہنا ہے کہ میری اجازت کے بغیر میرا ٹیکس ریکارڈ منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ سرینا عیسی کا کہنا تھا کہ میرے پاس مختلف زرعی اراضی ہے جو کہ وراثت میں ملی اور اس اراضی کی دیکھ بھال میرے والد کرتے تھے، ریحان نقوی نے ایڈوائس کی کہ فارن کرنسی اکاونٹ اوپن کروائیں حکومت کو میری زمین کے بارے میں پتہ ہے، میں غلط بیانی نہیں کرونگی۔ سرینا عیسی نے فارن کرنسی اکاونٹ کا ریکارڈ دکھاتے ہوئے بتایا کہ مجھے یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، سال 2003 سے 2013 تک رقم اسی اکاونٹ سے باہر گئی، بنک دس سالہ پرانا ریکارڈ نہیں رکھتے تمام پیسہ بینک اکاونٹ سے لندن بھیجا گیا۔ میرے نام سے پیسہ باہر گیا اور جس جس اکانٹ سے پیسہ باہر گیا وہ میرے نام پر ہے۔ ایک پراپرٹی 2 لاکھ 36 ہزار پانڈ میں خریدی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک کے فارن کرنسی اکائونٹس میں سات لاکھ پائونڈ کی رقم ٹرانسفر کی گئی۔ یہ تمام دستاویزات جو میں نے دکھائی ہیں اصلی ہیں۔ مجھے محدود وقت دیا گیا ہے۔ میرا لندن اکائونٹ بھی صرف میرے نام پر ہے۔ سرینا عیسی نے برطانیہ میں ٹیکس گوشواروں کا 2016 سے اب تک کا ریکارڈ دکھایا اور کہا کہ برطانیہ نے زیادہ ٹیکس دینے پر ٹیکس ریفنڈ کیا۔ میں ایف بی آر گئی مجھے کئی گھنٹے انتظار کرایا ایک بندے سے دوسرے بندے کے پاس بھیجا گیا، میں نے پوچھا میرا RTO کراچی سے اسلام آباد کیوں تبدیل ہوا، میں نے ایف بی آر کو دو خط بھی لکھے،27 جنوری 2020 کو ایف بی آر جاکر پہلا خط حوالے کیا۔ اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے نوٹس کیا ہے کہ آپ کے پاس اپنے موقف کو ثابت کرنے کیلئے ریکارڈ موجود ہے۔ ہمارے لیے مسئلہ ہے میرٹ کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ آپ کے پاس دو فورم ہیں، فریقین سے پوچھا کہ معاملہ ایف بی آر کو بھجوا دیتے ہیں، دوسرا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے، آپ وہاں پر موقف دے سکتی ہیں، آپ کے پاس سوالات کے مضبوط جواب ہیں، متعلقہ اتھارٹیز کو ان دستاویزات سے مطمئن کریں، جسٹس عمر عطا بندیال نے سرینا عیسی سے کہا کہ آپ کے حوصلے کی داد دیتے ہیں۔ سرینا عیسی کا کہنا تھا کہ مجھ سے یہ بات پہلے کیوں نہیں پوچھی گئی،13 ماہ میں نے انتظار کیا، میرے بیٹے کو انگلینڈ میں ہراساں کیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ میں آپ کو ایک بات بتا دوں کہ ہم ججز قابل احتساب ہیں، ججز نجی اور پبلک زندگی میں جوابدہ ہیں، آپ ایک جج کی لائف پارٹنر ہیں، آپ نے جو جواب دیا وہ قانون کا تقاضا ہے، ہم دوسرے پبلک آفس ہولڈرز سے زیادہ جوابدہ ہیں۔ سرینا عیسی کا کہنا تھا کہ آغاز میں ہی مجھ سے بات پوچھ لی جاتی تو بہتر تھا۔ میں کسی قسم کی رعایت نہیں مانگتی۔ مجھ سے عام شہری کی طرح سلوک کیا جائے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ13 ماہ سے آپ سے کسی نے نہیں پوچھا تو ہدایت کے مطابق ٹیکس گزار جاتا ہے۔ آپ کو ٹیکس حکام کے پاس جانا ہو گا امید کرتے ہیں ٹیکس کی حکام آپ کو عزت دیں گے۔ آپ بہت بہادر اور حوصلہ مند خاتون ہیں۔ سرینا عیسی کا کہنا تھا کہ مجھے پہلی مرتبہ موقع ملا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اچھے ذہن کے ساتھ آپ کو موقع دیا، ہمارے پاس مقدمہ میرٹ پر سننے کا حق نہیں، ہم آپ کے حوالے سے مطمئن ہیں۔ خریداری کے ذرائع سے بھی مطمئن ہیں، اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے۔ سرینا عیسی کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کے پاس تمام معلومات موجود تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آدھا گھنٹہ سن کر محسوس ہوا کہ آپ کے پاس اپنا موقف پیش کرنے کے لیے کافی مواد ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جج کی اہلیہ نے ایف بی آر کی بہت شکایت کی ہے۔ حکومتی وکیل فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے زیادتی کی تو براہ راست شکایت وزیر اعظم کے پاس جائیگی۔
جسٹس فائز کی اہلیہ نے جائیدادوں کی منی ٹریل پیش کردی، احتساب کے نام پر تباہی ہو رہی: جسٹس مقبول باقر
Jun 19, 2020