عمران فاروق قتل کیس، 3ملزموں کو عمر قید، مارنے کا حکم بانی متحدہ نے دیا: عدالت

اسلام آباد (نامہ نگار/چوہدری شاہد اجمل/ نوائے وقت رپورٹ) سلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے متحدہ قومی مومنٹ کے بانی رکن عمران فاروق کے قتل کیس میں ملزموں خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ تینوں ملزموں کوعمران فاروق کے ورثا کو 10، 10لاکھ روپے (مجموعی طور پر 30لاکھ روپے)کی ادائیگی کا بھی حکم دیا، عدالت نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین سمیت افتخار حسین، اشتہاری ملزمان محمد انور اور کاشف کامران کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے، 10سال بعد ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ سنایا گیا ہے،39صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں عمران فاروق قتل کیس کی وجوہات بھی بتائی گئی ہیں، فیصلے کے مطابق ثابت ہوا کہ عمران فاروق کو قتل کرنے کا حکم الطاف حسین نے دیا، عمران فاروق کو قتل کرنے کا مقصد تھا کہ کوئی الطاف حسین کیخلاف بات نہیں کر سکتا، جمعرات کو ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے کی اور فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 21مئی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا، جیل میں قید تین ملزموں کو ویڈیو لنک کے ذریعے طلب کیا گیا تھا، ملزموں کی حاضری ویڈیو لنک کے ذریعے لگائی گئی، ملزم معظم علی، سید محسن علی اور خالد شمیم نے وڈیو لنک کے ذریعے اڈیالہ جیل سے مقدمے کا فیصلہ سنا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کیخلاف استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے، عمران فاروق قتل کیس سزائے موت کا مقدمہ بنتا ہے، برطانیہ سے شواہد ملنے کی وجہ سے سزائے موت نہیں دی جارہی، ایم کیو ایم لندن کے دو سینئیر رہنماؤں نے یہ حکم پاکستان پہنچایا، ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے معظم علی نے قتل کے لیے لڑکوں کا انتخاب کیا، فیصلے کے مطابق عمران فاروق کو قتل کرنے کے لیے محسن علی اور کاشف کامران کو چنا گیا، محسن اور کاشف کو برطانیہ لے جا کر قتل کروانے کے لیے بھرپور مدد کی گئی، عمران فاروق کو قتل کا مقصد عوام میں خوف و ہراس پھیلانا بھی تھا، عمران فاروق قتل کیس دہشتگردی کے مقدمے کی تعریف پر پورا اترتا ہے، ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس نے تقریبا 7697دستاویزات کی چھان بین اور 4556افراد سے پوچھ گچھ کی جبکہ 4323اشیا قبضے میں لی گئیں۔ 04مئی 2016وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا۔ دورانِ سماعت استغاثہ کے 29گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، برطانیہ نے شواہد فراہم کیے، برطانوی گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔ کیس کے برطانوی چیف تفتیش کار نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا تھا، گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے، دوسری جانب ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ فاروق نے کہاکہ دو چیزیں بہت طاقتور ہیں صبر اور وقت، مجھے شروع سے اللہ پر یقین تھا، جوبھی فیصلہ ہوا بہتر ہے۔ عدالتی فیصلے پر مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہتی، زندگی دکھ میں گزار رہی ہوں، اللہ دشمن کو بھی یہ وقت نہ دکھائے۔ ہیڈ آف یو کے کائونٹر ٹیرارزم کمانڈ رچرڈ سمتھ نے عمران فاروق قتل کیس میں عدالتی فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ اطمینان ہوا۔ ٹیم ورک کے باعث ملزمان کو سزا ملی۔ دس سال تک ٹیم نے دلجمعی سے کیس کی تحقیقات جاری رکھیں۔ تحقیقات کے دوران لندن پولیس نے چار ہزار گواہوں سے بات چیت کی۔ ہزاروں گھنٹے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی جائزہ لیا گیا۔ پرطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر نے کہا ہے کہ فیصلہ برطانیہ، پاکستان کے اداروں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن