اگر کسی سے سوال کیا جائے کہ ’’آپ کے گھر کا سربراہ کون ہے؟‘‘ تو جواب میں وہ ایسے شخص کا نام بتائے گا جو اس کے گھر کا کفیل ہو، گھر والوں کے لیے کھانے پینے، لباس اور رہائش کا انتظام کرتا ہو، ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہو، ان کے مسائل حل کرتا ہو، ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتا ہو، زندگی کے مختلف مشکل مراحل میں ان کی مدد کرتا ہو، ان کے لیے ایثار اور قربانی کا جذبہ رکھتا ہو، مشکلات میں ساتھ دیتا ہو الغرض اپنے گھر والوں سے متعلق اپنی خاندانی، علاقائی، سماجی اور اخلاقی ذمہ داریاں پوری طرح نبھاتا ہو، سب کی دیکھ بھال کرتا ہو یہ ’’سربراہ‘‘ کا ایک ایسا عام فہم تصور ہے جسے ہر ذی شعور جانتا اور ہر صاحبِ عقل سمجھتا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ صحیح معنو ں میں وہی ’’سربراہ‘‘‘ ہے جو اپنے ماتحت لوگوں کے حوالے سے صحیح معنوں میں اپنی ذمہ داری نبھائے نہ کہ وہ جو اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی بلاجواز دوسروں پر ڈال دے۔ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ ایسا شخص جب کسی ’’گھر کا سربراہ‘‘ نہیں ہو سکتا تو پوری ’’قوم‘‘ کا سربراہ کیونکر ہو گا۔
ہمارے پیارے آقا، دو عالم حضرت سیدنا محمد مصطفیؐ کا نہایت روشن فرمان ہے کہ ’’ (ترجمہ)قوم کا حاکم (دراصل) ان کا خادم ہوتا ہے۔‘‘ (کنزالعمال) مگر افسوس! آج عملاً ہمارے حکمران سیاست دانوں کے ہاں ’’سربراہ‘‘ کا مفہوم بیان کیے گئے ’’سربراہ‘‘ کے مفہوم کے بالکل الٹ ہے وہ گویا سمجھتے ہیں کہ جب ہم ’’سربراہ‘‘ بن جائیں (یعنی حقیقتاً جب ان پر قوم کی ذمہ داری عائد کر دی جائے) تو پھر ہمیں عوام کی خدمت کرنی نہیں بلکہ ان سے خدمت لینی ہے۔ حکمران بننے کے بعد اچھا لباس، اچھی سواری، اچھا کھانا اور بلند معیار زندگی عوام سے پہلے ہمارا حق ہو کیوں کہ ہم سربراہ ہیں، عوام کی تنخواہ بڑھے نہ بڑھے، ہماری ضرور بڑھے کیوں کہ ہم سربراہ ہیں، عوام کو بجلی، گیس اور دیگر سہولتیں میسر ہوں نہ ہوں ہمیں ضرور ہوں کیوں کہ ہم سربراہ ہیں، کسی کو انصاف ملے نہ ملے ، مہنگائی کم ہو نہ ہو، سڑکیں بنیں نہ بنیں، کوڑے کے ڈھیر صاف ہوں نہ ہوں، تعلیم عام ہو نہ ہو، شرحِ خواندگی بڑھے نہ بڑھے، جہالت مٹے نہ مٹے، بے روزگاری ختم ہو نہ ہو، ہمیں کیا غرض ! ہم سربراہ ہیں، نوکر نہیں۔ مخدوم ہیں، خادم نہیں، عوام کو چاہئے کہ ٹیکسوں کے ذریعے ہماری زیادہ سے زیادہ خدمت کریں۔ یہ ہے ہماری سیاسی سوچ جس کی قیادت میں ہم ’’دن دگنی رات چوگنی ‘‘ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے ہاں جس طرح ڈاکٹر، مریض کو مریض نہیں بلکہ ’’گاہک‘‘ سمجھتا ہے اور وکیل جھوٹ کے بغیر مقدمے کی کامیابی پر یقین نہیں رکھتا، اسی طرح ’’قوم کا خادم‘‘ بھی اپنے آپ کو ’’مخدوم‘‘ سمجھتا ہے۔ تو جب وہ اپنے آپ کو ’’خادم‘‘ سمجھتا ہی نہیں تو عوام کی خدمت بھلا کیوں کرنے لگا؟