ترقی اور معاشی نمو کے ذریعے خوشحالی کا پیامبر  پی ٹی آئی کا پہلا عوامی و نظریاتی بجٹ 

مصطفی کمال پاشا
mkpasha1@gmail.com
بجٹ 2021-22ء قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے اس کی تفصیلات ہماری قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آچکی ہیں۔ وزیر خزانہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بجٹ کے تمام گوشے عوام کے لیے بیان کر چکے ہیں۔ بجٹ کے بارے میں عمومی تاثر مثبت اور خوشگوار ہے، اسے سادہ سا بجٹ کہا جا رہا ہے۔ شاید ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ بجٹ دستاویز کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا بنانے کی بجائے عام زبان میں واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ 119 ارب روپے کی چھوٹ اور رعایتیں دی گئی ہیں ۔ نئے ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکسوں میں رد و بدل کر کے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر کے وصولیوں کا حجم بڑھانے کی مثبت کاوشیں اس بجٹ کا  نمایاںحصہ ہیں۔ بجٹ کا مرکزی خیال گروتھ اور معاشی نمو کے ذریعے روزگار میں اضافہ کرنا ہے۔ اس طرح ٹیکس وصولیوں میں اضافے کی پالیسی مبنی برحقیقت نظر آتی ہے۔ معاشی ماہرین تجزیہ نگاروں ، صنعتکاروں ، سرمایہ کاروں اور کاروباری تنظیموں کے نمائندہ افراد نے بجٹ کو بحیثیت مجموعی ایک مثبت اور کارگر دستاویز قرار دیا ہے اور اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اگر حکومت نے بجٹ میں بیان کردہ پالیسیوں پر من و عن عمل کر دکھایا تو قومی معیشت بہتری کی طرف  چل نکلے گی اور ملک میں خوشحالی بھی آئے گی۔ حکومت نے جس اعتماد کے ساتھ بجٹ پیش کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ بیان کردہ اہداف حاصل کر لیے جائیں گے۔ 
وفاقی بجٹ 2021-22 ء ترتیب کے لحاظ سے پی ٹی آئی حکومت کا  تیسرا بجٹ ہے۔ پی ٹی آئی کے انتخابی وعدوں کے مطابق اس بجٹ میں تعمیر و ترقی ، فلاح و بہبود ، روز گار اور کاروبار میں بہتری کی بہت سی ایسی تجاویز شامل ہیں جن پر عمل درآمد کے نتیجے میں قومی معیشت میں بہتری اور عوامی بہبود میں اضافے کے امکانات  پیدا ہوئے ہیں۔ 
بجٹ کا مجموعی حجم 8 ہزار چار سو ستاسی (8487) ارب روپے ہے جس میں قومی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3006 ارب روپے ، دفاع کے لیے 1370 ارب روپے ، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 900 ارب روپے خرچ کئے جانے کا تخمینہ شامل ہے۔ دیگر اخراجات کی مد میں 3090 ارب روپے خرچ ہوں گے۔جہاں تک تعلق ہے اخراجات کا تو تین مدات میں اخراجات پر تو حکومت کا کسی طور بھی کنٹرول نہیں۔ قرضوں پر سود / اصل زر کی واپسی، دفاعی اخراجات اور سرکار کو چلانے و دیگر اخراجاتِ جاریہ تو  لازمی اور طے شدہ ہیں ۔  ان پر کسی صورت کٹ لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے قومی بجٹ میں یہی تین مدات ایسی ہیں جو ہمارے وسائل کھا جاتی ہیں۔ موجودہ حکومت بھی تو ان قرضوں کی ادائیگیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ یہ ادئیگی مزید قرضوں کے ذریعے ہی کی جارہی ہے جس کے باعث اس دورِ حکومت میں بھی قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی رہا ہے۔  انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، ورلڈ بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، پیرس کلب ، لندن کلب اور اسی طرح کے دیگر عالمی اداروں نے مفلوک الحال اقوام کو دل کھول کر قرضے جاری کئے اور پھر  وہ اقوام اپنے پائوں پر کھڑی ہو گئیں اور عالمی معاشی نظام کا  حصہ بن گئیں۔ اس کے برعکس ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ قرض لینے والی اقوام ایک بار عالمی اداروں سے قرض لے کر ان کے چنگل میں ایسی پھنسیں کہ بس وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبتی ہی چلی گئیں۔ پاکستان ایسے ہی ممالک میں شامل ہے ۔
گزرے دو سالوں کے دوران کورونا وبا ہمارے معاشی و معاشرتی نظام پر بُری طرح  مسلط رہی ہے جس کے باعث ہماری معاشی نمو کے حصول کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ حالیہ بجٹ میں ترقی کا ہدف 4.8 فیصد طے کیا گیا ہے۔ کیونکہ بجٹ کا محور و مرکز ترقی اور تعمیر ہے جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں فروغ پائیں گی۔ 900 ارب روپے کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ایک مناسب حجم کا پروگرام ہے۔ یہ گزشتہ سال 600 ارب روپے کے مقابلے میں 34 فیصد زیادہ ہے اس سے معاشی گروتھ ہونے کی قوی امید ہے  ۔اپنے ترقیاتی پروگرام کو نافذ العمل کرنے کے حوالے سے حکومت بہت پُرجوش دکھائی دے رہی ہے۔ ویسے عالمی سطح پر کورونا بھی سمٹنے سے معاشی سرگرمیاں بحال ہو ئی ہیں ۔ ہمارے برآمدی اہداف حاصل ہونے کی امید ہے ۔ دوسری طرف عالمی منڈی میں ہمارا حریف بھارت بُری طرح کورونا کے جال میں پھنسا ہوا ہے ، اس کے ہاں معاشی سرگرمیاں شدت سے متاثر ہیں ، جس کے باعث ہمیں زیادہ برآمدی آرڈر ملنے کی امید ہے جنہیں پورا کرنے کے لیے محنت کے ساتھ صنعتی و پیداواری سرگرمیاں بڑھانا ہونگی ۔ سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ اس طرح روزگار کے مواقع پیدا ہونگے ، لوگوں کی قابلِ تصرف شخصی آمدنیوں میں بھی اضافہ متوقع ہے جو ان کی قوت خرید میں اضافہ کرے گا۔ 
دوسری طرف ہر شہری گھرانے کو کاروبار کے لیے بلاسود 5 لاکھ روپے قرض ، کم آمدن ہائوسنگ سکیم کے تحت 20 لاکھ روپے کے سستے قرضے اور ہر خاندان کے لیے صحت کارڈ کی فراہمی کی مدات میں خرچ کئے جانے والی رقومات گردش زر میں اضافہ کریں گی۔ 
حکومت نے بجٹ کے ذریعے معاشی نمو کو استحکام دینے کی پالیسی اختیار کی ہے ۔ جاری مالی سال 2020-21 ء کے دوران جو معاشی نمو وقوع پذیر ہوئی ہے ، مالی سال 2021-22 ء کے درمیان اس میں نا صرف استحکام لایا جائے گا بلکہ مختلف طریقوں سے اس میں اضافہ کرنے کے ذرائع اختیار کئے گئے ہیں۔ 900 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ اسی سوچ کا عکاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 20-21 ء کے محصولات ٹارگٹ 4.691 ٹریلین کے مقابلے میں 21-22 کے دوران 5.829 ٹریلین کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں اضافہ نئے ٹیکس لگا کر نہیں بلکہ ٹیکس نیٹ میں اضافے اور ٹیکسوں میں ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے جب معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا تو اسی حساب سے محصولات کا حجم بھی بڑھے گا۔ 
حکومت نے نان ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2.08 ٹریلین روپے مقرر کیا ہے ، یہ ایک بڑا لیکن مناسب ہدف ہے جیسے موثر منصوبہ بندی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ٹیلی کام سیکٹر پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کو  3G/4G لائسنسوں کی فروخت کے ذریعے 45.5 ارب روپے ، موبائل ہینڈ سیٹ پر ٹیکس کے ذریعے 29.5 ارب روپے ، صوبائی رقوم پر سود سے 35.5 ارب روپے وصول ہونے کی توقع ہے۔ مرکزی بینک منافع سے 650 ارب روپے حاصل ہونے کا اندازہ ہے۔ جہاں تک تعلق ہے 3G/4G لائسنسوں کی فروخت کا تو اس بارے میں ہمیں شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ 2002-03 کی سیلولر پالیسی اس بات کی گواہ ہے۔ پی ٹی اے کے اس وقت کے چیئرمین جنرل شہزادہ عالم ملک نے انتہائی محنت اور ذہانت کے ساتھ لوکل اور گلوبل مارکیٹ سروے کے بعد ٹیلی کام پالیسی ترتیب دی اور سیلولر فون انڈسٹری کو سرمایہ کاری کے لیے کھولا۔اور بہتر منصوبہ بندی کے باعث تین نئے سیلولر موبائل آپریٹر مارکیٹ میں آئے اور قومی خزانے کو 750 ملین ڈالر کی خطیر رقم ملی جو ایک مثال ہے۔ 
2021ء میں اخراجات جاریہ میں 2020-21ء کے مقابلے میں 20 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حکومتی اخراجات 8489,259 ملین روپے سے بڑھ کر 10262,309 ملین روپے ہو جائیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ سرکاری قرضوں پر سود اور  اعانتیں ہے۔ حکومت نے تنخواہوں اور پنشن میں بھی اضافہ کیا ہے جبکہ کم از کم اجرت بھی 20 ہزار تک کر دی گئی ہے۔ ایسی تمام مدات میں بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث اخراجات جاریہ میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ایسے اخراجات، گردش زر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ سرمایہ کاری میں اضافہ کرتے ہیں۔ کاروباری، صنعتی اور پیداواری سرگرمیوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں خرچ کیا جانے والا روپیہ ضارب کے عمل کے ذریعے معیشت میں کئی گنا تخلیق زر کا باعث بنتا ہے۔ معاشی سرگرمی فروغ پاتی ہے۔ آمدنیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔  اوربرآمدات میں اضافے کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑھوتی ہوتی ہے۔ گویا ایک سرگرمی کا آغاز، مختلف نوع کی سرگرمیوں کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔ معیشت کی گروتھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجٹ 2021-2020ء کے تخلیق کاروں نے مختلف انواع و اقسام کی سرگرمیوں کو اس طرح سمویا ہے کہ یہ ایک انتہائی قابل عمل دستاویز بن گئی ہے۔
سب سے ہم بات بغیر نئے ٹیکس لگائے، عوام پر کسی بھی نئے ٹیکس کا بوجھ لادے بغیر اس قدر وسیع و عریض بجٹ پیش کرنا حکومت کا ایسا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ اتنی ہی کم ہے۔ اس کے باوجود اپوزیشن اس پر تنقید کر رہی ہے کیونکہ ان کا کام ہی صرف تنقید کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز صنعتکار، بینکار اور سرمایہ کار میاں منشاء نے بھی اس بجٹ دستاویز کو سراہا ہے۔ اسے قومی معیشت کیلئے بہتر قرار دیا ہے۔ صنعتی و تجارتی نمائندہ تنظیموںکے ذمہ داران نے بھی اسے بزنس فرینڈلی اور مثبت بجٹ قرار دیا ہے۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے وابستہ نمائندہ افراد نے بحیثیت مجوعی بجٹ دستاویز  کو مثبت قرار دیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ کے مثبت اشاریے بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ سرمایہ کاروں نے بجٹ کو مثبت انداز میں لیا ہے جس کے باعث انہوں نے دل کھول کر خریداری کی اور نفع اندوزی کے امکانات دیکھتے ہوئے مارکیٹ میں روپیہ پھینکا۔ ایسی تمام کارروائیوں کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بجٹ کو مثبت اور بہتر سمجھا جا رہا ہے۔ 
مجموعی بجٹ خسارہ: 3999 ارب روپے پر مشتمل ہے جبکہ صوبوں سے اضافی 570  ارب روپے وصول کرنے کے بعد کل خسارہ 3420   ارب روپے رہ جائے گا۔ ظاہر ہے یہ چھوٹی رقم نہیں ہے۔ ساڑھے تین ہزار ارب روپے کا فرق پورا کرنا معمولی بات نہیں ہے۔ بجٹ دستاویز میں ان تمام ذرائع کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جن کے ذریعے یہ خسارہ پورا کیا جائے گا۔ویسے تو مجموعی طورپر روایتی انداز میں اولاً نوٹ چھاپ کر اور دوم بیرونی ممالک سے قرض لیکر ایسا خسارہ پورہ کرنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی انکم ٹیکس میں اضافہ، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ، رعایتوں کا خاتمہ جیسی شرائط کے بغیر قرض نہیں دیتے۔ا نوٹ چھاپ کر خسارہ پورا کرنا انتہائی مہلک ہے، مہنگائی پہلے ہی ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہی ہے۔
حکومت نے تیل کی رسد کو یقینی بنانے کیلئے سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں۔ ہمیں ایسے اشارے ملے ہیں کہ سعودی عرب ہمیں ادھار تیل دینے کیلئے آمادہ ہے۔ اس طرح ہمارا درآمدی سیل کسی نہ کسی حد تک کم ہو جائے گا اور ہمارے متوقع اخراجات میں کسی نہ کسی حد تک کمی ہو سکے گی۔ہمیںبیرونی ذرائع سے 1246  ارب روپے وصول ہونے کی امید  بھی ہے۔ہماری بیرون ممالک کچھ جائیدادیں ہیں ، بیرون ممالک بسنے والے پاکستانی بھی ہمیں رقوم بھجوائیں گے۔ اس کے علاوہ ہم نان بنکنگ ذرائع سے بھی قرض حاصل کرتے ہیں۔ قومی بچت سکیموں وغیرہ کے ذریعے 1241 ارب روپے وصول ہونے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ نجکاری کا جاری عمل بھی خسارہ پورا کرنے یا کم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس سال نجکاری کے عمل کے ذریعے 252 ارب روپے حاصل ہونے کی امید ہے۔ ترقیاتی منصوبوں پرجتنا جتنا کام مکمل ہوتا جاتا ہے، اتنا بل ادا کر دیا جاتا ہے۔  سال کے آخر میں پتہ چلتا ہے کہ طے کردہ بجٹ کا شاید 30/40 فیصد حصہ ہی خرچ ہو پایا ہے۔ گزرے سالوں میں تو 70/80 فیصد بجٹ خرچ بھی نہیں ہو پایا کیونکہ کرونا کے باعث سرکاری کام رکا رہا اس لئے طے کردہ بجٹ استعمال نہیں ہو سکا۔ ویسے یہ عام روایت ہے کہ ہے کہ طے کردہ بجٹ 100/100 خرچ ہوتا ہی نہیں ہے۔ اس طرح اس سال بھی طے کردہ اخراجات کم ہو سکتے ہیں جس سے خسارہ اور بھی کم ہو جائے گا۔
بجٹ خسارہ: کم / پورا کرنے کی ایک اور سبیل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر قرض خواہ ادارے اپنی وصولیوں کے حوالے سے ہمیں کچھ رعایت دے دیں۔ یعنی وصولیوں میں کچھ نرمی کر دیں۔ اس سے بھی ہمارے سے کردہ اخراجات کے حجم میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے ۔اس طرح قرض کی ادائیگیوں کے حجم میں کمی کے باعث بجٹ خسارے میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ بہرحال یہ سارے اس بات کا فیصلہ تو مالی سال 2021-22ء کے آ خر پر بھی ہوگا کہ خسارہ کس قدر رہا اور کس قدر پورا ہو سکا۔
آخر میں بجٹ کے بارے میں اپوزیشن کی رائے: اپوزیشن کی تمام تر توجہ ’’آدھے خالی گلاس‘‘ کی طرف ہی رہی ہے۔ انہیں گلاس کا آدھا بھرا ہوا حصہ یعنی بجٹ کے محاسن تو بالکل ہی نظر نہیں آئے بلکہ بجٹ کی ممکنہ کمزوریاں، خامیاں بھی نظر آئی ہیں۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ دستاویز میں بجٹ کے مندرجات میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ بجٹ کا فریم ورک بہترین ہے۔ ترقیاتی ہے، فلاحی ہے، عوامی ہے اور بڑی حد تک عوام کو سہولیات پہنچانے کے نقطہ پر مرکوز ہے۔ اورنئے ٹیکسوں کی بھرمار نہیںہے۔ علاوہ ازیں احساس پروگرام کے ذریعے غریبوں میں نقد روپے کی تقسیم اور قرضوں کی گنجائش سے معیشت میں کھلا پن آئے گا۔ تنخواہوں میں 10 فیصد  فیصد اضافہ افراط زر کے حوالے سے کم نظر آتا ہے۔ سرکاری ملازمین اس حوالے سے شاید زیادہ خوش نہیں ہونگے۔ہاں ایک اہم بات، بلکہ بہت ہی ضروری بات مہنگائی ہے۔ کیا اس بجٹ کے نتیجے میں مہنگائی کم ہوگی؟ اشیاء ضروریہ قیمتوں میں کمی واقع ہوگی؟ تو اس کا  سردست حتمی جواب دینا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن