خبریں ہیں کہ آئی ایم ایف معاملے کو آگے بڑھانے پر راضی ہو گیا ہے یعنی قرضہ مل جائے گا۔ دیوالیہ ہونے کا خطرہ تو گزشتہ ہفتے چین کی طرف سے مدد مل جانے کے بعد ٹل ہی گیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعض محب وطن پاکستانی ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جانے سے بہت بدمزہ ہوئے یعنی انہیں افسوس ہوا۔
پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا لیکن اسے دیوالیہ کرنے کا سنگ بنیاد لگ بھگ پونے چار سال پہلے اس وقت رکھا گیا تھا جب راتوں رات ڈالر کی قدر بڑھنے کا ’’سانحہ‘‘ ہوا۔ روپیہ اچانک نیچے جا گرا اور پھر اس کے بعد سے روپیہ لڑھکتا ہی چلا جا رہا ہے۔ یہ سانحہ بے سبب نہیں تھا، اس کے اسباب بھی تھے اور مسبب اُلاسباب بھی۔ کھل کر کیا لکھیں، اگرچہ اس پردۂ زنگاری کے پیچھے جو معشوق تھے، وہ اتنے پردہ نشین بھی نہیں ہیں لیکن چلئے جانے دیتے ہیں۔ کچھ ’’اے ٹی ایم‘‘ مشینوں کو نوازنے کے لیے یہ طلسم ہوشربا برپا کیا گیا۔ اب وہ لوگ چلے گئے، اک دھوپ تھی کہ سب کچھ جھلسا کر رکھ دیا اور وہ دھوپ اب بہرحال گئی ساتھ آفتاب کے۔ جھلساہٹ باقی ہے اور ابھی کچھ عرصہ جلاتی اور تڑپاتی رہے گی۔ ماجرا معنیٰ مامعنیٰ کا نہیں ہے، اس بات کا بھی ہے کہ شہباز حکومت کیا کرتی ہے۔ دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹلا ہے لیکن معاشی استحکام دوربین لگا کر بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ دو مہینے خاصی مدّت ہوتے ہیں کہ پالنے میں پڑے پوت کے پائوں نظر آ جائیں اور اس حکومت کو آئے دو مہینے سے تو زیادہ ہی ہو گئے۔
____________
چار سال بعد فاٹف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور غالب امکان ہے کہ اکتوبر میں ایسا ہو جائے گا جس کے بعد پاکستان کی تجارت کو فائدہ ہو گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ جی ایچ کیو نے ا س بارے میں یعنی عالمی شکایات دور کرنے کے لیے جو کور سیل بنایا تھا، اس کی اور قومی کوششوں کو کامیابی ملی ۔
بڑا کردار بلاشبہ کور سیل کا ہے۔ البتہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربّانی کے حالیہ سفارتی رابطوں نے بھی نتیجہ خیزی میں مدد دی۔ یہ دونوں وزیر مسلسل عالمی سفارت کاری کرتے رہے۔ شاید یہ مرحلہ جلد آ جاتا لیکن اس دوران ہماری طرف سے مسلسل یہ بیانات عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بنے رہے کہ پاکستان سے ہر روز اتنے ارب کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ پھر اس دوران بعض (اب سابق) وزیروں نے بیانات دئیے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے پابندی اٹھا لیں گے، اسے قومی دھارے میں لائیں گے۔، وغیرہ ۔ یہ بیانات دوسری یعنی الٹ سمت سے ’’موثر‘‘ ثابت ہوئے۔
پاکستان فاٹف لسٹ میں عبوری حکومت کے دور میں آیا جو شریفوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنی۔ اب پھر شریفوں کی حکومت ہے جو ’’سوگواروں‘‘ کیلئے اتنی خوش آئند بات نہیں۔
____________
بھارت میں توہین رسالت اور پھر مسلمانوں کیخلاف کریک ڈائون کے خلاف بنگلہ دیش میں بہت بڑے بڑے مظاہرے ہوئے، دو شہروں میں تو اتنے بڑے مظاہرے تھے کہ انہیں لاکھوں کا کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک ایک بھی ایسا مظاہرہ نہیں ہو سکا جو بنگلہ دیشی مسلمانوں کے ذرا سا بھی جوڑ کا ہو۔ اس کی کیا وجہ ہے؟۔ کیا پاکستانی عوام بنگلہ دیشیوں سے کم غیرت رکھتے ہیں؟۔ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ ایسا ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ معاملہ شاید چناں قحط سالے شد اندر دمشق والا لگتا ہے۔ شہر یاروں نے پچھلے چار برسوں سے عوام کی معاشی دھنائی کچھ ایسے زور و شور سے کی ہے کہ شہریوں کے کس بل نکل گئے ہیں۔ عشق فاقہ مستوں کے بس کی بات نہیں۔ ہاں، شاعری کی بات اور ہے۔
ادھر بدترین گستاخی کرنے والی نوپور شرما روپوش ہو گئی ہے۔ اور پولیس اسے ڈھونڈنے میں مسلسل ناکام ہے۔ پولیس کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس لئے کہ اسے اوپر سے حکم ہے کہ اسے ’’ناکام‘‘ رہنا ہے چنانچہ وہ تعمیل ارشاد کر رہی ہے۔ بہت زیادہ دبائو کے باعث بی جے پی حکومت نے اس پر مقدمہ بنا دیا۔ مجبوری تھی۔
____________
بھارت میں ایک اور معاملہ گرم ہے۔ نریندر مودی نے ایک فوجی پروگرام اگنی پتھ (خیابانِ آتش) کے نام سے شروع کیا ہے جس میں لاکھوں نوجوانوں کو چار سال کے لیے فوج میں بھرتی کیا جائے گا۔
ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ نکالا جا رہا ہے کہ یہ بھارتی حکومت کے جنگی جنون کا مظہر ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بھارت کا جنگی جنون تو اپنی جگہ ہے، اس میں شک نہیں لیکن یہ ماجرا کچھ اور ہے۔
چار سال فوج میں رہنے والے یہ نوجوان جب فارغ ہوں گے تو ان کے پاس بھرپور فوجی تربیت ہو گی۔ ہر قسم کے ہتھیاروں کا علم اور انہیں چلانے کی صلاحیت بھی ہو گی۔ ٹھیک ٹھیک نشانہ باز ہوں گے، کمانڈو صلاحیت بھی ہو گی۔ جب یہ بے روزگار ہوں گے تو بی جے پی انہیں متبادل ملازمت دے گی اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بلووں میں استعمال کرے گی۔ مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی جائے گی۔ یہ ہے منصوبہ۔
لیکن یہ الٹا پڑ گیا ہے۔ نوجوان اس عارضی ملازمت پر مشتعل ہیں، انہوں نے خاص طور پر شمالی بھارت میں (کہ بھرتیاں زیادہ تر یہیں سے ہوئی ہیں) بڑے بڑے مظاہرے اور ہنگامے کئے ہیں۔ بی جے پی کے دفاتر پر بھی حملے ہوئے ہیں، املاک کو تباہ کیا ہے اور ایک جگہ پر تو ٹرین بھی نذر آتش کر دی۔ دوسری طرف سیاسی رہنمائوں میڈیا اور ریٹائرڈ فوجیوں نے بھی اس سکیم کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس منصوبے کا دفاع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
کردار شیطانی ہو تو ذہن بھی شیطان کا ہو جاتا ہے اور بڑی دور کی شیطانی سوچ سوچتا ہے،مودی اس کا ’’پرفیکٹ ماڈل‘‘ ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ زائد از ضرورت شیطنت خود شیطان کے گلے پڑ جاتی ہے۔ نوپور شرما اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے پہلے توہین رسالت، پھر مسلمانوں کے گھر مسمار کرنے کی ظالمانہ مہم (اب تک سینکڑوں گھر گرائے جا چکے ہیں اور پولیس بلڈوزر لے کر مسلمان محلّوں میں دن رات گھوما کرتی ہے) نے جہاں عالمی برادری میں بی جے پی کا منہ کالا کیا ہے وہاں خود بھارت کے اندر اس ظلم کے خلاف اور مسلمانوں کے حق میں اٹھنے والی آوازیں بڑھ گئی ہیں۔ مسلمانوں کی بے خوفی میں بھی قدرے اضافہ ہوا ہے (مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق) جس سے سنگ پریوار کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ اس پریوار کو ’’مزاحمت‘‘ کا کبھی خدشہ رہا ہی نہیں تھا۔
____________