اگرچہ حبیب جالب کی مزاحمتی شاعری کا آغاز 1960ء کے اردگرد ہو گیا تھا یعنی جب بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا گیا مگر جب 1962ء میں نیا صدارتی آئین نافذ کیا گیا اور صدر کا الیکشن عوام کی بجائے 80 ہزار بنیادی جمہوریت کے ممبروں کے ذریعے طے پا گیا تو جالب کے لیے وہ وقت آ گیا جب اس کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ اس زمانے میں اس نے وہ انقلابی نظم لکھی جو جلد ہی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کے دل و دماغ پر چھا گئی۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
اگر 1958ء کے مارشل لاء کو دیکھنے والے میرے جیسے چند لوگ ابھی زندہ ہیں تو انھیں یاد ہو گا کہ اس دور میں حکومت کے خلاف بات کرنا کتنا مشکل تھا! تحریر و تقریر پر مکمل پابندی تھی۔ حمید نظامی جیسے کسی ایک آدھ مردِ مجاہد کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ کسی نہ کسی طرح ایوبی آمریت پر تنقید کر ڈالتے تھے مگر ان پر جتنا دباؤ تھا وہ ’نوائے وقت‘ کے اس زمانے کے قارئین کو اچھی طرح یاد ہو گا۔ جالب نے اپنی یادداشتوں میں لکھا بھی ہے کہ نظامی (مرحوم) کو یہ نظم بہت پسند تھی ورنہ پورے ملک کے ذرائع ابلاغ کا جو حال تھا اس کی عکاسی جالب کے اس شعر میں بخوبی ہوتی ہے:
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں
پھر جالب نے ہر قسم کے خطرات کا بے مثال دلیری سے مقابلہ کیا۔ لالچ، دھمکی، خوف، تھانے، جیل غرض حکومت جو کچھ کر سکتی تھی کرتی رہی مگر جالب حکومت کے خلاف اسی قسم کی نظمیں لکھتا رہا اور جلسوں میں پڑھتا رہا۔ 1964ء کے صدارتی انتخاب میں اکثر اپوزیشن پارٹیاں ایوب کے خلاف متحد ہو گئیں۔ ان میں لیفٹ اور رائٹ کی ساری قابلِ ذکر پارٹیاں شامل تھیں۔ الیکشن کے لیے ایوب کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کچھ تامل کے بعد میدان میں آ گئیں۔ اس پر ایوب کے حامی پریشان ہو گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ کی قوم کتنی عزت کرتی ہے۔ محترمہ کے جلسوں میں عوام کے لیے ایک کشش حبیب جالب کی نظمیں بھی تھیں۔ نظموں کا باغیانہ لہجہ اور جالب کی نہایت دلکش آواز دور دور سے لوگوں کو کھینچ لاتی تھی۔ ایوب خان اور اس کے وزیروں مشیروں نے یہ سوچا کہ جالب کے مقابلے میں حفیظ جالندھری کو میدان میں لایا جائے۔ حفیظ جالندھری خلوص سے یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی حکومت مضبوط ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔ ایسے بہت سے اور لوگ بھی تھے۔ یہ بات حفیظ جالندھری کے حق میں جاتی ہے کہ انھوں نے معذرت کر لی اور کہا کہ محترمہ فاطمہ جناح قائداعظم کی بہن ہیں۔ علاوہ ازیں، وہ میرے گھرانے پر ہمیشہ بہت شفقت کرتی رہی ہیں اس لیے میں ان کے خلاف نہیں لکھ سکتا۔ چنانچہ حفیظ جالندھری پر خفگی کا اظہار کیا گیا۔ آخر جالب کے مقابلے میں مشیر کاظمی کو لایا گیا مگر حکومت کے اس پہلوان کا جالب سے کوئی جوڑ نہیں تھا۔ جالب کے خلاف جو حربے اختیار کیے گئے وہ شرمناک تھے اور بعض اوقات مضحکہ خیز بھی تھے۔ مثلاً ایک ہسٹری شیٹر وارث تھا، جالب نے اس سے کچھ رقم ادھار لی تھی۔ جالب پر یہ کیس بنایا گیا کہ رقم واپس مانگنے پر جالب اور وارث کی تکرار ہو گئی اور جالب نے اس غنڈے پر حملہ کر کے اُسے زخمی کر دیا تاہم عدالت نے جالب کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد آف کالا باغ تھے۔ انھوں نے بطور گورنر پورے مغربی پاکستان میں وہی نظام رائج کر رکھا تھا جو جاگیردار اپنی جاگیروں میں بسنے والوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ جالب نے اس پر بھی کھل کر تنقید کی۔ اپنی مقبول نظم
بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
صدر ایوب زندہ باد
کالا باغ‘ کا ذکر یوں کیا ہیــ:
عام ہوئی غنڈہ گردی
چپ ہیں سپاہی باوردی
شمعِ نوائے اہلِ سخن
کالے باغ نے گُل کر دی
اہلِ قفس کی قید بڑھا کر
کم کر لی اپنی میعاد
صدر ایوب زندہ باد
جب جالب اپنی یہ نظم احباب کو سناتے تھے تو ایوب کی الف کو عین سے بدل کر ’عیوب‘ کر دیتے تھے۔ قصہ مختصر 1964ء کا الیکشن ہوا۔ عوام کی اکثریت ایوب کے سخت خلاف تھی خصوصاً مشرقی پاکستان میں تو اس کے جیتنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا لیکن 80 ہزار ووٹروں سے جب ترغیب اور تحریص کے بل پر ووٹ لیے گئے تو ایوب جیت گیا۔ اس سب کچھ کے باوجود ڈھاکہ اور کراچی میں ایوب کو شکست ہوئی۔ جیت پر شکر کرنے کی بجائے ایوب کے فرزند نے کراچی کے ایک محلے میں محترمہ مس جناح کے ووٹروں پر فائر کھول دیا اور کتنی جانیں گئیں، تعداد معلوم نہیں ہونے دی گئی۔ (جاری)
حبیب جالب: جہدِ مسلسل کی علامت (3)
Jun 19, 2022