سینئر آفیسرزکے نام سے تشکیل شدہ واٹس ایپ گروپ میں یکدم پیغامات کی شراکت کا سلسلہ بندھ گیا۔دیکھا تو انا للہ واناالیہ راجعون اور افسوس و صدمہ پر مشتمل دکھ بھرے الفاظ کی بھرمار تھی۔منہ سے بے ساختہ نکلا،ـ ـ ’’ یا اللہ خیراب کے کون بچھڑ گیا‘‘ ؟پیغامات کو سکرول کرتے کرتے پہلے پیغام پر پہنچا تو پڑھ کر پائوں تلے سے زمین کھسکتی محسوس ہوئی ۔آنکھوں پر یقین نہ آیا ۔دل سے دعا نکلی کہ یا اللہ پیغام میں مذکورنام اُس شخص کا نہ ہو جس کی تصویر میرے ذہن میں گھوم رہی تھی۔دل کی تسلی کے لئے موبائل فون میں محفوظ شدہ ناموں کی فہرست کھولی تو بنا یقین کیے کوئی چارہ نہ رہا۔ڈی پی پر لکھی تحریر پر نظر پڑی توعلامہ اقبال کی معروف فارسی رباعی’’تو غنی ازہر دوعالم ،من فقیر‘‘ دیکھ کر مرحوم کا صوفیانہ مزاج یاد آگیا۔ساتھ ہی اُس کی پوری شخصیت جو اپنے رفقاء سے یکسرمختلف تھی،جملہ اوصاف کے ساتھ مجسم کھڑی دکھائی دی۔لمبا قد،خوبصورت نقوش،گھنے بال،بھرابھرا سا جسم،کِھلے کِھلے لب، دھیما مردانہ لہجہ ،موثر الفاظ سے لبریز گفتگو اور گفتگو پر دینی اخلاقیات،ایمانداری،بے ریا خدمتِ خلق، محنت ،خدا پرتوکل کی چھاپ گہری یاد پڑی، اور آنکھوںسے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔
مرکزی اورصوبائی سول سروسز کے امتحانات میں کامیابی کے بعد بائیس سال تک عمران رضا عباسی کی صوبائی سروسز میں مختلف اہم عہدووں پر تعیناتی رہی۔ مرحوم صاف شفاف ملازمتی ریکارڈ ،اپنے کیڈر میں فوقیتی درجہ اور وسیع پیشہ ورانہ تجربہ کے باوجود اپنے سے کم تعلیم وتجربہ اور پست سینریٹی کے لوگوں کو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر دیکھ کراکثر احساس کمتری محسوس کرتے۔مستقبل میں اپنی قابلیت اور تجربہ کے مطابق ترقی و تعیناتی کے مواقع کی غیر یقینی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی سب سے بڑی مرکزی سروس کا امتحان دے ڈالا اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے اب ان کی نظر بہتر مستقبل پر تھی۔مگر14جون کی صبح کو نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد خدا جانے کتنی محرومیوں،انہونیوں کے خوف اور نااُمیدی کے اوج پر پہنچ کر پھندے سے جھول گئے۔اُنکے انتقال پر دوستوں میں آخری ملاقات کاحوالہ بس ایک تھا ،’’مجھے آخری وقت فلاں مسجد میں نماز پر ملے‘‘ کسی نے کہا کہ اس نے انہیں فلاں مسجد میں آتے یا جاتے ہوئے دیکھا۔کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے کسی غیر اخلاقی یاسماجی طور پر ناپسندیدہ مقام یا موقع پر ان کی کبھی موجودگی کا حوالہ دیا ہو۔
راقم نے اپنی ستائیس سالہ سرکاری ملازمت کے دوران عمران رضا عباسی جیسا ہمہ جہت اوصاف کا مالک اَفسر نہیں دیکھا،جو زبانی نہیںبلکہ عملی مسلمان تھا۔عبادات کو اُن کے تکلفات کے ساتھ ادا کرنا ،اپنی پیشہ ورانہ، اخلاقی اور سماجی ذمہ داریوں کو جوش و ولولہ سے نبھانا ان پر ختم تھا۔اتنے خوبصورت اور بے مثل اَفسر کا یوں ناامیدی ،محرومی یا کسی امتیازی برتائو کے باعث دلبرداشتہ ہو کر اپنی جان سے کھیل جانا صرف توجہ نہیں مانگتابلکہ تحقیق اور کھوج کی شدید ضرورت کا تقاضاکرتا ہے۔
عمران سے چند سال پہلے سہیل ٹیپو ،ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہونے کی توقیر کے باوجود پھندے سے جھول چکا تھا۔اسی طرح ایس پی ابرار حسین نیکو کارہ نے بغیر کسی ظاہری وجہ، مجبوری یا سبب کے اپنی دفتری کرسی پر بیٹھے بیٹھے خود کو گولی مار کرحیاتِ عزیزکو مختصرکر لیا۔اس سے قبل بھی کئی اَفسران زندگی پر موت کو ترجیح دینے کی رسم ڈال گئے۔
کسی بھی مضمون میں ایم اے کرنے کے لئے آٹھ سے دس پرچے دینا ہوتے ہیں۔مگر مقابلہ جاتی امتحانات کیلئے مختلف مضامین کے بارہ پرچے دے کر اپنے ساتھیوں سے اُن پرچوں میں سبقت ثابت کرنے کی بنیاد پر ملازمت کیلئے اہل ٹھہرنا ہوتا ہے۔ ان مقابلہ جاتی امتحانات کے مضامین کے نصاب کی بات کی جائے تو ہر مضمون کا جدا جدا نصاب متعلقہ مضمون کے ایم اے کے نصاب کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی کئی سالوں پر مبنی مشقت سے بھرپور جگراتوں، راہنمائی کیلئے اکیڈیمیوں کی فیسوں،گھریلو اور سماجی ذمہ داریوں کی قربانی،بہن ،بھائیوں اور والدین سے دوری اور والدین کی عدم خدمت کی شرمساری کے سارے مراحل سے گزر کر رینگتے رینگتے، دعائیں کرتے کامیابی کی دہلیز کو چومنے کی سرفرازی نصیب میں آتی ہے۔وہ عوامل واوامر جو حصولِ مقصد کے بعد طلب موت میں ڈھل جاتے ہیں،یقیناً وہ عام نہیں ہو سکتے۔ایسے عوامل اور اوامرکی تہہ تک پہنچنے اور مستقبل میں سدِ باب کرنے کیلئے جہاں مطالعاتی تحقیق کی ضرورت ہے،وہاں سروسز کے اندر پائی جانے والی جہت در جہت امتیاز پر مبنی قباحتوں، نا انصافیوں اوراقرباپروری کے اثرات وامکانات کو کم کرنا ہوگا۔
کچھ عرصہ قبل جب کم تجربہ کار ،کم تعلیم یافتہ اور انتظامی صلاحیتوں سے نابلد لوگ ’’وطنِ عزیزداری‘‘ کے ’’وصفِ خاص‘‘کے تحت اعلیٰ انتظامی عہدوں پر بٹھائے جارہے تھے ،تو ایک ضلع سے دو معززاراکین اسمبلی ایک معتبر سرکاری افسر کے ہاں تشریف لائے اوراسے اپنے ضلع میں ڈپٹی کمشنر لگوانے کی پیشکش کی،جس پراس افسر نے اُن کا یہ کہتے ہوئے شکریہ ادا کیا کہ تعیناتی ہوجانے پران کے جائز کاموں کے بجا لائے جانے کی رفتار انکی سوچ کے مطابق ہو گی، تاہم ناجائز کام اس نے کبھی اپنا بھی نہیں کیا۔یہ بات سننے کے بعد سے اب تک نہ اُنہوں نے دوبارہ ایسی کوئی پیشکش کی اور نہ اس افسر نے کسی کی غرض فرما یاکو بجا لانے پر آمادگی کااظہار کیا ۔
بلاشبہ سیاستدانوں کو سولنگ، نالیاں بنوانے، چوکیدار، نائب قاصد بھرتی کرانے، پٹواریوں، تحصیل داروں،رضاکاروں،سپاہیوں اور تھانے داروں کے تبادلے کروانے ،سرکاری زمینوں پر قابض لوگوں کو ملکیتی حقوق دلانے،غیر حاضر اساتذہ،ڈسپنسروں اور ڈاکٹروں کی پشت پناہی کرنے اور مقامی سطح پر ترقیاتی کاموں میں اپنا اثرو رسوخ ثابت کرنے کے لئے اپنی مرضی کے انتظامی اَفسران اپنے اپنے علاقوں میں مطلوب ہوتے ہیں،جو انہیں ’’بآسانی دستیاب ہو جاتے ہیں‘‘۔لیکن شرافت، قابلیت، ایمانداری، اخلاق، خدمت کے جذبہ سے سرشار، مگر سیاسی اور انتظامی’’وطنِ عزیزداری ‘‘سے گریز پا اَفسران بے قدری کے جاڑوں میں ٹھٹھر ٹھٹھرکر ساٹھ کے عدد پر پہنچ کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔ہو سکتا ہے،اپنے لیے پھندے کا انتخاب کرنے والوں کو بے قدری کے جاڑوں نے یہاں تک پہنچایا ہو۔آیئے، اس اَمر کی تحقیق کریںاور نتائج آجانے کے بعد اس کے سدِ باب کرنے کی طرف جلدی سے راغب ہوں۔
٭…٭…٭