گھبرائے دل کے ساتھ اوپر تلے پاکستان کے معاشی مسائل کی بابت سوالات اٹھاتے کالم لکھنے سے اکتا گیا ہوں۔جو سوالات اٹھائے ان کے تسلی بخش جوابات بھی نہیں ملے۔ غالب کی بیان کردہ ’ہورہے گا کچھ نہ کچھ....‘ والی بے نیازی مجھے نصیب نہیں ہوئی۔ اسی باعث فیصلہ کیا کہ پاکستان کے بجائے دیگر ممالک کے معاملات میں جھانکا جائے۔ وہاں سے بھی ایسے موضوعات تلاش کرنے کو ترجیح دی جائے جو طبیعت کو پھکڑپن کے لیے اکسائیں۔ صاف نیت کا پھل مل جاتا ہے۔ویسے بھی سابق امریکی صدر ٹرمپ مجھ لہوری کو اپنی ’رنگ بازیوں‘ کی وجہ سے بہت بھاتا ہے اور موصوف پر ان دنوں برا وقت آیا ہو ا ہے۔
چند دن قبل اسے گرفتار کرکے امریکی ریاست فلوریڈا کی ایک عدالت میں پیش کرنا پڑا۔ وہاں اس نے ایک محل نما مکان اور مہنگا ترین گالف کلب بنارکھا ہے۔ نیویارک رہنے کے بجائے وہاں قیام اسے زیادہ پسند ہے۔ اس کی قیام گاہ مگر گزشتہ کئی مہینوں سے امریکی خفیہ اداروں کی نگاہ میں تھی۔ ’قومی سلامتی‘ کے بارے میں فکر مند اداروں کو شبہ تھا کہ وائٹ ہاﺅس چھوڑتے ہوئے ٹرمپ اپنے ساتھ ایسی دستاویز بھی لے گیا ہے جو انتہائی خفیہ تھیں۔ فقط اس کے پڑھنے کے لیے تیار ہوئیں۔ انھیں دیکھنے کے بعد امریکی صدر یا تو انھیں اپنے سٹاف کی موجودگی میں ’ضائع‘ کردیتا ہے یا انھیں متعلقہ اداروں کو لوٹادیتا ہے۔
امریکی خفیہ اداروں کو شبہ تھا کہ ٹرمپ نے مذکورہ اصول اور قانون کا احترام نہیں کیا۔وائٹ ہاﺅس چھوڑنے سے قبل چند حساس دستاویزات کو صندوقوں میں ڈال کر فلوریڈا میں واقع گھر بھجوانا شروع ہوگیا۔ مبینہ طورپر یہ دستاویزات بعدازاں اس گھر کے تہہ خانوں میں چھپادی گئیں۔ خفیہ اداروں کو شبہ یہ بھی ہے کہ ’شیخی خور‘ ٹرمپ اپنے گھر رکھی چند دستاویز کو اپنے قریبی دوستوں کو مرعوب کرنے کے لیے دکھاتا بھی رہا ہے۔کئی مہینوں تک پھیلی نگرانی کے بعد بالآخر ٹرمپ کے فلوریڈا والے گھر پر چھاپا پڑا اور وہاں چھپائی دستاویزات ’برآمد‘ کرلی گئیں۔جو دستاویزات برآمد ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میں امریکا کے ایٹمی اثاثوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔مذکورہ تفصیلات کا امریکا کے ممکنہ حریفوں کی ایٹمی صلاحیتوں اور اثاثوں کے ساتھ تقابلی جائزوں پر مشتمل دستاویزات بھی ٹرمپ اپنے ہمراہ لے جانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔
’برآمد شدہ‘ دستاویزات کی بنیاد پر ٹرمپ امریکا کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا مرتکب ٹھہرائے جانے کے علاوہ حساس دستاویزات’چوری‘ کرنے کا ملزم بھی قرار پاسکتا ہے۔ اس پر لگائے الزامات اتنے سنگین ہیں کہ ٹرمپ ہی کے لگائے ایک سابق اٹارنی جنرل نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ان میں سے 50فیصد بھی درست ثابت ہوگئے تو ٹرمپ غالباً اپنی بقیہ عمر جیل میں سڑتا رہے گا۔
وطن عزیز کے دیگر باسیوں کی طرح ’قومی سلامتی کے لیے خطرے‘ کا الزام مجھے خوفزدہ کردیتا ہے۔فرض کیا ہمارے کسی سابق وزیر اعظم یا صدر کے ہاں سے اس نوعیت کی دستاویزات خفیہ ایجنسیوں نے چھاپہ مار کر برآمد کرلی ہوتیں تو وہ صاحب سمری کورٹ سے سزا پاکر اس وقت جیل میں بیٹھے تاحیات مشقت کاٹ رہے ہوتے۔امریکا کا نظام عدل مگر اپنی ریاست اور خفیہ اداروں کو ایسے اختیارات فراہم نہیں کرتا۔ ٹرمپ پر مقدمہ چلانے سے پہلے اسے عام شہریوں پر مشتمل ’جیوری‘کے روبرو پیش ہونا ہوگا۔جیوری کے روبرو امریکی ریاست اور خفیہ اداروں کے وکلاءکو ثابت کرنا ہوگا کہ جو دستاویزات ٹرمپ کے گھر چھاپہ مارنے کی بدولت برآمد ہوئیں انھیں ذاتی تحویل میں رکھنے کا سابق امریکی صدر مجاز ہی نہیں تھا۔ اگر اس نے حد سے تجاویز کیا تب بھی جیوری کو یہ قائل کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کے ہاں سے برآمد ہوئی دستاویزات قومی سلامتی کے لیے واقعتا سنگین خطرہ ثابت ہوسکتی ہےں۔
امریکی ریاست اور خفیہ اداروں کا بنیادی مسئلہ اب یہ ہوگیا ہے کہ ’کھلی عدالت‘ میں عام شہریوں پر مشتمل جیوری کو کون سی دستاویزات کس حد تک دکھائیں۔ فرض کیا وہ اپنی اصل صورت میں منظر عام پر آئیں تو قومی سلامتی کا معاملہ ’خفیہ‘ نہیں رہے گا۔ جو حقائق ابھی تک امریکا کے ممکنہ حریفوں سے چھپائے گئے تھے وہ برسرعام آجائیں گے۔اپنی مشکلات کے بھرپور ادراک کے باوجود امریکی ریاست اور خفیہ ادارے بااعتماد ہیں کہ عام شہریوں پر مشتمل جیوری ان کی جانب سے کسی بھی انداز میں دکھائی دستاویزات اور ان کی بنیاد پر دیے دلائل سے ٹرمپ کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دیدے گی۔
ٹرمپ نے جو ’وختہ‘ڈالا ہے وہ مگر اس کے باوجودبھی ختم نہیں ہوگا۔امریکہ کی بدنصیبی ہے کہ اسے آئین میں ترامیم کے لیے جنرل ضیاءالحق جیسے مرد مجاہد اور شریف الدین پیرزادہ جیسے ’جادوگر‘ وکلاءنصیب نہیں ہوئے۔ اس ملک کے تحریری آئین میں ہمارے ’اسلامی آئین‘ کی 62/63جیسی شقیں موجود ہی نہیں ہیں۔ فرض کیا عام شہریوںپر مشتمل جیوری کی جانب سے عدالت کو ٹرمپ کے خلاف کارروائی کی منظوری کے انجام پر ٹرمپ کو جیل بھیج دیا گیا تب بھی وہ امریکا کے آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا حق دار رہے گا۔ ٹرمپ کے دیرینہ مخالفین کو اب یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اس کے جنونی حامیوں نے اگر اسے ’مظلوم‘ تصور کیا تو وہ آئندہ صدارتی انتخاب کے دوران تگڑا ترین امیدوار ثابت ہوسکتا ہے۔ کئی کالم نگار لہٰذا اب نہایت سنجیدگی سے اس امر کی بابت قیاس کے گھوڑے دوڑانا شروع ہوگئے ہیں کہ ’سزا یافتہ ٹرمپ‘ جیل سے امریکی صدر منتخب ہوجانے کے بعد اپنے ’فرائض‘ کیسے سرانجام دے گا۔ میرے جیسے چند پھکڑ باز بلکہ یہ امکان بھی ذہن میں لاکر چسکے لے رہے ہیں کہ جیل میں مقیم ’منتخب امریکی صدر‘ دیگر ممالک کے سربرہان سے ’سربراہی ملاقاتیں‘کس نوعیت کے ماحول میں کرے گا۔
سچی بات ہے کہ ابتداً میں نے مذکورہ معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔’قومی سلامتی‘ کی بابت جبلی طورپر خوف میں مبتلا رہے دل ودماغ نے طے کررکھا تھا کہ ٹرمپ کے فلوریڈا والے گھر سے ’حساس دستاویزات‘ کی برآمدگی کے بعد اس کے بچنے کے امکانات دور پرے تک موجود ہی نہیں۔امریکا کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ٹھہرائے جانے کے بعد اپنی بقیہ عمر جیل ہی میں گزارے گا۔ معاملہ پر البتہ سنجیدگی سے غور کیا تو جیوری کی اہمیت کا احساس ہوا اور یہ دریافت بھی کہ امریکی آئین کے تحت عدالتوں سے ’سز ا یافتہ مجرم‘ بھی اگر اس ملک کا باقاعدہ شہری ہے تو وہاں کے صدارتی انتخاب میں امیدوار کھڑا ہونے کا حق رکھتا ہے۔
اس سے قبل یہ واقعہ آج سے ایک صدی قبل 1920ءمیں ہوئے صدارتی انتخاب کے دوران بھی ہوا تھا۔ریلوے مزدوروں کا ایک رہ نما وہاں کی ’سوشلسٹ پارٹی‘ کا سربراہ منتخب ہوگیا تھا۔پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے کے لیے امریکا نے جب شہریوں کو ’فوجی خدمات‘سرانجام دینے کے لیے جبری بھرتی کا سلسلہ شروع کیا تو اس رہ نما نے جس کا نام یوجین ڈی ڈیبس تھا اس کے خلاف تقاریر شروع کردیں۔ اس کا خیال تھا کہ جنگیں فقط امریکا کی اسلحہ ساز کمپنیوں اور فوج سے دھندا کرنے والوں کے لیے منافع خوری کی راہیں کھولتی ہے۔ ان کے دوران فقط غریب آدمی ہی جانوں سے جاتے ہیں جنھیں ’حب الوطنی‘ کے نام پر ’گمراہ‘ کیا جاتا ہے۔ اس کی جانب سے ہوئی تقاریر بالآخر اسے ’غداری‘ کے الزام کے تحت جیل بھجوانے کا سبب ہوئیں۔اس کے باوجود صدارتی انتخاب لڑنے کا حق دار رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر پایا۔ٹرمپ کا کیس ذرا ہٹ کے اس لیے بھی ہے کہ وہ ’سزا یافتہ مجرم‘ ہونے کے باوجود تگڑا ترین صدارتی امیدوار ثابت ہوسکتا ہے۔