تعمیر خانہ کعبہ اور حج (2)

حضرت ابراہیم علیہ السلام ابو قیس پر چڑھ گئے اور وہاں سے تمام ساکنان عالم کو بیت اللہ میں حاضر ہونے کی ندا دی ۔ یہ ندائے ابراہیمی نہ صرف عالم ارضی کے ہر شخص نے سنی بلکہ عالم ارواح میں بھی اسے سنا گیا اور ہر ایک نے اپنی استعداد کے مطابق لبیک کہا ۔ مالک کون و مکاں نے پھر اپنے پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے گھر کے اداب ملحوظ رکھنے کی تعلیم ارشاد فرمائی ۔ ارشاد فرمایا : ”میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجود کرنے والوں کیلئے پاک صاف رکھیں ©“۔ چند ایک رسمیں دور جاہلیت سے عربوں کے اندر رائج تھیں جن کو قرآن مجید میں منع کر دیا گیا ۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا : ” یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں پچھلی طرف سے داخل ہو بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ انسان تقوی اختیار کرے “۔دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : ” تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گنا ہ نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے “۔ایک اور غلط تصور زمانہ جاہلیت کا جو تھا کہ حج کے سفر کے دوران اپنے ساتھ زاد راہ نہ لے جاتے یا اسے حرام سمجھتے ارشاد باری تعالی ہے : ” اور حج کیلئے زاد راہ لو بلا شبہ بہترین زاد راہ تقوی ہے اور مجھ سے ہی ڈرو اے عقل والوں “۔ اور فرمایا : ” تم پر کچھ گناہ نہیں کہ حج کے ایام میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو “۔دور جاہلیت میں عربوں میں ایک بری رسم پائی جاتی تھی کہ حج سے واپسی پر منیٰ میں اکھٹے ہوتے جس میں اللہ تعالی کی عظمت و کبریا ئی بیان کرنے کی بجائے وہ قبائلی فخر کا اظہار کرتے ۔ اپنے اپنے قبیلے اور اباﺅ اجداد کے کارنامے بیان کرتے اور اپنے مد مقابل کی ہجو کرتے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی اس قبائلی تفاخر کے اظہار پر قد غن لگا دی اور ارشاد فرمایا :” پس تم اللہ تعالی کو اس طرح یاد کرو جیسے اپنے آباﺅ اجداد کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اللہ کو یا د کرو “۔آج جو ہمیں حج کی صورت نظر آتی ہے یہ حج کی ارتقائی صورت جو فتح مکہ کے ایک سال بعد نو سن ہجری میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی سر براہی میں ادا کیا گیا فتح مکہ آٹھ ہجری میں ہو ا۔اگلے ہی سال حضو ر نبی کریم ﷺ بنفس نفیس صحابہ کرام رضوان اللہ علھیم اجمیعن کی معیت میں حج کیلئے تشریف لائے اور انہوں نے یک اجتماع کے سامنے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جسے خطبہ حجة الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس عظیم الشان یاد گار خطبے کو بجا طور انسانی حقوق کی دستاویز کہا جا سکتا ہے۔اس خطبے کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت اور اعجاز کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے اس میں فخر دو عالم ﷺ نے قبائلی تفاخر و عصبیت ، سماجی اونچ نیچ کے باطل تصوارات اور عرب و عجم کے جھوٹے اختیارات ، مادی شا ن و شوکت اور طبقاتی تصورات اور عرب وعجم کے غیر حقیقی نظریات کو پامال کر دیا ۔ 
 
 

ای پیپر دی نیشن