یونان کشتی حادثے میں  298پاکستانی جاں بحق 

 جنوبی یونان کے ساحل پر تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے حادثے میں 298 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ 12 افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔ یونان میں پاکستانی سفارتخانے نے تصدیق کی ہے کہ اب تک 12 شہریوں کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔ سفارتخانہ کے حکام نے کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے 12 پاکستانیوں سے ملاقات بھی کی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد 500 سے زائد افراد تاحال لاپتا ہیں۔ لاپتا افراد میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ یونان میں ہونے والا حادثہ انتہائی افسوسناک ہے۔ جاں بحق ہونے والوں کا تعلق زیادہ تر پاکستان کے ان پسماندہ علاقوں سے ہے جہاں بے روزگاری کا عفریت ہرسو پھیلا ہوا ہے۔ یہ لوگ روزگار کی تلاش میں غیرقانونی طریقے سے اٹلی سے یونان جارہے تھے کہ کشتی کا حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ یہ حکمرانوں کے لیے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہیے کہ ان کے ہزارہا دعوﺅں کے باوجود عوام کو ملک میں روزگار میسر نہیں جس سے تنگ آکر وہ اپنے اہل خانہ کی کفالت کی خاطر غیرقانونی راستہ اپناتے ہیں۔ اس وقت ملک میں بے روزگاری عروج پر ہے۔ روزگار نہ ہونے کے باعث نوجوان بے راہ روی کا شکار ہیں، بھوک کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ یا تو خودکشیاں کر رہے ہیں یا چوری ڈکیتی کی وارداتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے بچوں کے لیے نہ روٹی ہے نہ تعلیم اور نہ ان کے تن پر کپڑا نظر آتا ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جن سے بیزار ہو کر یہ لوگ دوسرے ملک جانے کے لیے غیرقانونی اقدام سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دوسرے ملکوں کے عوام کی زندگیوں میں انھیں استحکام نظر آتا ہے۔ اگر حکومت اپنے دعوﺅں کے مطابق انھیں اپنے ملک میں مناسب روزگار کی سہولیات فراہم کردے تو اس عمر میں وہ ملک کی ترقی میں اپنا مو¿ثر کردار ادا کر سکتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ سیاستدان آپس کی چپقلش اور دست وگریبان میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ انھیں عوام کی مشکلات کا ادراک ہی نہیں ہو پا رہا۔ حکومتی دعوﺅں کے باوجود عوام کو ایک ٹکے کی سہولت میسر نہیں۔ ان کے لیے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی ہی وبال جان بنی ہوئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیرقانونی طور پرگئے ہوئے ان پاکستانیوں کو وطن واپس لا کر انھیں مناسب روزگار فراہم کرے تاکہ انھیں اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے غیرقانونی راستہ اختیار نہ کرنا پڑے۔ 

ای پیپر دی نیشن