معیشت کا تاریک دور، سیاسی مخالفت اور آئندہ عام انتخابات

پارلیمان اور حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے دو ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے۔ گزشتہ چودہ مہینے سے وفاقی حکومت سنبھالے ہوئے حکمران اتحاد میں مختلف جماعتیں شامل تو ہوگئی تھیں لیکن عام انتخابات کے قریب آتے ہی ان جماعتوں میں تقسیم نظر آنے لگی ہے اور واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ یہ جماعتیں الیکشن میں جب ایک دوسری کے مقابل آئیں گی تو تقریروں اور خطابات میں ایک دوسرے کو ویسے ہی تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا جائے گا جیسا کہ ماضی میں بنایا جاتا رہا ہے۔ سیاسی اختلاف دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے لیکن ہمارے وہاں وہ اپنی بدترین شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے سیاسی جماعتوں کے قائدین حقیقی ملکی اور عوامی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے سارا وقت اپنے سیاسی مخالفین کو لتاڑنے میں گزار دیتے ہیں۔ تقریباً سوا سال سے حکمران اتحاد میں شامل افراد بھی یہی کررہے ہیں کہ وہ مسلسل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو کوستے جارہے ہیں لیکن اپنے اصل کام پر توجہ نہیں دے رہے، اور اب تو ایسی آوازیں بھی سنائی دینے لگی ہیں جن میں ایک دوسرے سے بیزاری کا عنصر پایا جاتا ہے۔
گزشتہ روز کے اخبارات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے جو بیانات شائع ہوئے ان سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ پی پی پی اب آئندہ عام انتخابات پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ بلاول زرداری نے سوات میں ایک جلسے کے دوران وزیراعظم محمد شہباز شریف کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے پیسہ نہیں ملا تو پیپلز پارٹی بجٹ منظور نہیں ہونے دے گی۔ انھوں نے وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم پر دوہرے معیار کا الزام لگایا اور کہا کہ وزیراعظم نے کہا کچھ اور، بجٹ میں کچھ اور سامنے آیا، ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم اپنی ٹیم میں شامل ان لوگوں سے حساب لیں جو وعدے پورے کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کا خیال رکھتے ہیں جبکہ دوسری جماعتیں مخصوص افراد کا خیال رکھتی ہیں۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی الیکشن کے لیے تیار ہے، اتحادیوں سے بھی کہیں گے کہ تیاری پکڑیں، جس طرح میئر کراچی کا الیکشن جیتے ہیں اسی طرح پورے ملک میں جیت کر دکھائیں گے۔
ہمارے ہاں سیاستدانوں کے پاس عوام کے سامنے خود کو معصوم اور اپنے مخالف کو ظالم ثابت کرنے کے لیے جو ہتھیار موجود ہیں تعصب بھی ان میں سے ایک ہے جسے خاص طور پر صوبائیت کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ بھی اب وہی ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے وفاق کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سندھ کی سکیم نہیں رکھی گئیں تو حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کو سندھ کو ترجیح دینا ہوگی، کراچی کی سکیم کے پیسے رکھنا ہوں گے۔ سندھ اسمبلی میں خطاب کے دوران مراد علی شاہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا 1750ارب روپے رکھے ہیں، سندھ کے ساتھ ناانصافی قبول نہیں سندھ حق ملنا چاہیے، اس طرح کام نہیں چل سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کل وزیر اعظم سے مل کر آیا ہوں، 7 نئی اسکیمیں ڈالی گئی، وفاق سے 29 ارب روپے رکھے گئے، ہم نے کل کہا کہ سندھ کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔ چودہ مہینے حکومت میں گزارنے کے بعد پارلیمان کی مدت ختم ہونے سے دو ماہ پہلے انھیں یاد آگیا ہے کہ ایسے ’عوامی مسائل‘ بھی ہیں جن کی بنیاد پر وفاقی حکومت سے علیحدگی کا سوچا جاسکتا ہے۔
ادھر، وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی بھی ساری توانائی عمران خان اور ان کی جماعت کو غلط ثابت کرنے پر ہی خرچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملکی ترقی کے سفر کو روکنے والوں کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی،گزشتہ حکومت کے چار سالہ تاریک دور میں لاہور سے دانستہ طور پر بدلہ لیا گیا،بین الاقوامی کمپنیوں کو بے جا ہراساں کیا گیا،کمپنیوں کو تباہ کرکے سیاسی بھرتیوں سے اداروں کو تباہ کیا گیا۔ شہباز شریف کی کچھ باتیں تو ٹھیک ہیں لیکن سیاسی بھرتیاں اس ملک میں صرف عمران خان نے تو نہیں کیں بلکہ خود شہباز شریف بھی بطور وزیراعلیٰ پنجاب میں ایساہی کرتے رہے اور ان کے بردارِ بزرگ محمد نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بھی یہ سب ہوتا رہا۔ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں تو پھر احتساب بھی سب کا ہونا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اداروں میں سیاسی مداخلت نے اس ملک اور عوام کے لیے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ان مسائل کا سلسلہ تھمنے میں ہی نہیں آرہا۔
اگست 2018ءسے اپریل 2022ءتک عمران خان نے بطور وزیراعظم جو کچھ کیا اس کا حساب لیتے ہوئے یہ سلسلہ صرف ان تک نہیں رکنا چاہیے بلکہ ہر حکمران کا حساب اور احتساب کر کے عوام کا ملک، جمہوریت اور اداروں پر اعتماد بحال کیا جانا چاہیے۔ معیشت کا تاریک دور بھی 1958ءکے اس دن سے چل رہا ہے جب پاکستان پہلی بار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس گیا تھا۔ ملک کو اس حال تک پہنچانے کے لیے ہر سیاسی جماعت نے اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے لیکن کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا اور سب کچھ اپنے سیاسی مخالفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں بھی عوام کو خوشنما نعروں سے بہلا کر مستقبل کے سہانے خواب تو دکھائے جائیں گے لیکن اس بات کا امکان بہت ہی کم نظر آرہا ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت حقیقی ملکی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کرسکے۔

ای پیپر دی نیشن