خیالات …امتیاز حسین کاظمی
imtiazkazmi@gmail.com
گلی کے نْکر پر نالے کے کنارے ٹوٹا ہوا تھڑا اس کی مستقل رہائش تھی۔مختلف برانڈ کے سگریٹ کی ڈبیاں، چندماچسیں ، سلور کا ایک کٹورا ایک میلا کچیلا پرانا کمبل اور ایک پھٹا ہوا بستر جس میں جگہ جگہ سے روئی باہر لٹک رہی تھی اس کا کل اثاثہ تھا۔ہاتھوں اور پیروں پرجمی ہوئی میل کی پپڑیاں اس کے جسم کا حصہ بن چکی تھیں ۔سر کے بالوں کو گندگی نے گچھوں کی شکل میں تبدیل کر رکھا تھا ۔ یوں لگتاجیسے صفائی اس شخص کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ سوا سال پہلے یہ شخص ہمارے محلے میں اچانک نمودار ہو اورپھر اس تھڑے کے ساتھ ہمیشہ کا ناتہ جوڑ لیا۔اس شخص کی آمد مجھیتہکل کی طر ح یاد ہے ۔گزشتہ سال اکتوبر کا آخری دن تھا ۔اگلے دن یکم نومبر کو بیٹے کی سالگرہ تھی ۔میں نے آفس کے لیے نکلنے سے پہلے بیگم سے پوچھا کہ بیٹا کی سالگرہ پر کیا تحفہ دیا جائے۔ بیگم نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے پریشانی کے عالم میں کہا کہ رات ایک عجیب خواب دیکھا ہے اس وقت سے دل اْداس ہے ۔بس آپ نے جاتے وقت راستے میں صدقہ ضرور دے دینا ہے۔ اس سے قبل کہ مجھے بیگم کاپورا ’’خطبہ‘‘ سننا پڑتا میں گھر سے نکل آیا۔میرے پاس جاتے وقت جیب میں کوئی سکہ موجود نہ تھاجو کسی ضرورت مند کو دیا جاتا۔سو میں نے دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ رات بیگم نے ضرور کوئی سخت چیز کھا لی ہو گی۔ بدہضمی کی وجہ سے بھی تو عجیب و غریب خواب آ جاتے ہیں ۔ویسے بھی توہم پرستی کا مرض آج کل کی خواتین میں عام ہے۔ ہر بات کو روحانی اشارہ سمجھ لیتی ہیں۔میں نے بیٹے کے لیے تحفے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تاکہ دماغ سے بیوی کے خواب والا قصہ نکل سکے۔آفس پہنچ کر معمول کے مطابق سارا دن خوش گپیوں میں گزر گیا۔شام کو آفس میں دوستوں کے ساتھ مٹن پارٹی کا پروگرام بنا تو قریب کی ایک معروف ریستوران چلے گئے۔ہم چار افراد تھے ۔کھانا ضرورت سے زیادہ منگوا لیا اور پھر سوچے سمجھے بغیر اتنا کھا گئے کہ سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ یہاں سے فراغت کے بعد اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔ اپنی گلی مڑتے ہی میں نے اس فقیر کو تھڑے پر بیٹھا دیکھا۔اس کے ایک طرف سلور کا کٹورا پڑا تھا اور وہ سگریٹ کی ڈبیوں سے کھیلنے میں مصروف تھا۔میں بے خیالی میں آگے نکل آیا لیکن پھر یکدم بیگم کی "ہدایت" یاد آ گئی۔ معلوم تھا کہ گھر داخل ہوتے ہی پہلا سوال صدقے کے بارے میں کیا جائے گا ۔ سوبیگم کے ڈر سے میں واپس مْڑااور پانچ کا سکہ فقیر کے کٹورے میں ڈال دیا۔ وہ فقیر اپنے آپ سے باتوں میں مصروف تھا۔اس نے میری طرف دیکھے بغیرکٹورا اٹھایا اور سامنے بہتے ہوئے گندے نالے میں وہ سکہ اچھال پھینکا اور پھر کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔گھر کی طرف بڑھتے ہوئے میرے قدم بوجھل ہونے لگے۔ ذہن میں عجیب فکر پیدا ہو گئی۔ پھر خیال آیا کہ آج کل کے ’’ماڈرن فقیر‘‘سکے نہیں لتیے، روپے لیتے ہیں۔ممکن ہے اپنی’’جعلی فقیری‘‘ کا رعب مجھ پر جھاڑنے کے لیے اس نے یہ حرکت کی ہو۔ اس خیال کے آتے ہی میری دماغی بے چینی دور ہو گئی۔ہمارے محلے میں اس فقیر کا وہ پہلا دن تھا۔ فقیر میں ایک صفت قابل ذکر تھی کہ اس نے کبھی کسی گزرنے والے کو تنگ نہیں کیا۔ ہمیشہ اپنے آپ سے باتوں میں مصروف رہتا ۔کسی کو اس کی زبان سمجھ نہیں آتی تھی۔یہ کسی سے پیسے نہیں مانگتا تھا ۔محلے والے بچاہوا کھانا اس کے پاس چھوڑ جاتے۔لیکن یہ کسی کے سامنے کھاتا نہیں تھا۔معلوم نہیں رات کے کس پہر یہ اپنا پیٹ بھرتا۔اس کی پرسرار شخصیت کے حوالے سے اکثر عجیب عجیب باتیں سننے کو ملتیں۔کچھ لوگ اسے خفیہ ایجنسی کا کارندہ سمجھتے تھے جس کا مقصد محلے کے کچھ مخصوص گھرانوں پر نظر رکھنا تھا۔ایک دو بار لوگوں نے اسے یہاں سے اٹھایا اور محلے سے نکال دیا۔ لیکن پھر رات اندھیرے وہ واپس آ جاتا اور اسی تھرے پر اپنا بستر بچھا لیتا۔پچھلی گلی میں مسجد کے ساتھ والے مکان میں پولیس کا ایک ڈی ایس پی رہتا تھا۔کچھ محلہ داروں نے اس سے شکایت کی کہ اس مخبوط الحواس شخص نے محلے میں خوف پھیلا رکھا ہے۔بچوں اور خواتین کا یہاں سے گزرنا محال ہے۔ہر کسی کو پتھر مارتا ہے۔اس کا کچھ بندوبست کریں۔( حالانکہ اس بات میں ذرا بھر بھی سچائی نہ تھی) ۔پولیس آفیسر نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایک دو دن میں اس کا حل نکال لیں گے۔لیکن ڈی ایس پی کا یہ وعدہ بھی ’’زبانی پھرتی ‘‘ ثابت ہوا۔
میں شیو بنوانے گیاتو حجام نے انتہائی رازدارنہ انداز میں انکشاف کیا کہ وہ بابا تو ’’جاسوس‘‘ نکلا۔میں نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے استرے کی رفتارپہلے کم کی پھر ہاتھ روک لیا اور میرے کان کے بالکل قریب ہو کر کہنے لگا جب اس بابے نے ہماری گلی میں قدم رکھا تھا میں نے اس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ضرورکسی ’’خاص مشن‘‘ پر ہے ۔اس کی باتوں نے مجھے مزید حیران کر دیا ۔میں ٹکٹکی باندھے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔آخر تمھیں کس طرح پتا چلا کہ وہ شخص کوئی پاگل نہیں بلکہ جاسوس ہے۔
وہ میری طرف دیکھ کر یوں مسکرایا جیسے میری کم علمی پر طنز کر رہا ہو۔ڈی ایس پی نے جب ہاتھ جوڑ لیے اور محلے والوں کو یہ کہہ دیا کہ اس شخص کو یہاں سے کوئی نہ چھیڑے تو شاہ جی اس بات کے پیچھے کیا مطلب نکلتا ہے ۔یہی نا ۔۔۔۔کہ بابے کے ہاتھ کافی لمبے ہیں۔میں نے یہ سارے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔طرح طرح کے لوگوں سے واہ پڑتا ہے۔میں تو اڑتے پرندوں کے پر تک گن لیتا ہوں ۔حجام کی باتوں میں شیخی تھی۔
میں دوکان سے نکلا تو سوچ میں پڑ گیا کہ کیا حجام نے جو باتیں کیں ان میں کچھ حقیقت بھی ہے۔اپنی گلی میں پہنچا تو میری نظر سیدھی اس فقیر کی طرف اٹھی لیکن میں نے ایک دم ادھر اْدھر دیکھنا شروع کر دیا ۔اب وہ مجھے پاگل کم اور جاسوس زیادہ لگنے لگا تھا۔خیر میں وہاں سے تیزی سے اپنے گھر کی طرف بڑھا۔گھر پہنچا تو بیگم نے ایک نئی خبر سنائی۔گلی کے نْکر پر جو بابا جی بیٹھے ہیں وہ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ نائلہ کے ہاں بارہ سال سے اولاد نہیں تھی۔وہ بتا رہی تھی کہ کچھ دن پہلے اس نے بابا جی کو کھانے کے لیے سیب دیا تو وہ اس کی طرف دیکھ کر دعائیہ انداز میں مسکرائے۔ اب نائلہ امید سے ہے اور بہت جلد خوشی دیکھے گی۔ اس کرم دین چاچا کی بھی تو سنو، جو بابا جی کو محلے سے نکالنے پر بضد تھا ۔کل رکشے میں جا رہا تھا کہ رکشہ الٹ گیا ۔ اس کی ٹانگ دو جگہ سے فریکچر ہو گئی ہے ۔ہاں ۔۔۔۔ میں نے بابا جی کا نیا سوٹ سلوانے کے لیے دے دیا ہے۔کل ہی انہیں دوں گا اور تمھاری ترقی کے لیے ان سے دعا کا کہوں گی۔بیگم کی باتیں مجھے عجیب لگ رہی تھیں لیکن میں تھکا ہوا تھا اور خواہ مخواہ کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔میں جانتا تھا کہ وہ پاگل شخص تو ہر ایک کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے۔اس کی مسکراہٹ سے معجزے تراشنا بے وقوفی اور اندھی عقیدت کے علاوہ کچھ نہیں۔میری رہائش ایسی جگہ پر تھی جہاں بہت سارے فلیٹس تھے۔ مرد گھر وں سے نکل کر ملازمت پر چلے جاتے اور خواتین اکھٹی ہوکرقصے کہانیاں گھڑنے میں مصروف ہو جاتیں۔مغرب کے وقت بچے کے رونے کی آواز ، آدھی رات کو بلی کے چیخنے اور کتے کے روڑھنے کو بدشگونی قرار دیتے ہوئے پیش گوئیاں ہونے لگتیں کہ اب محلے میں کوئی بڑا حادثہ ہونے والا ہے۔اس طرح گھر میں داخل ہوتے وقت کوئی بچہ دروازے میں گر جائے تو کسی مہمان کی آمد کا فوراََمڑدہ سنا یا جاتا۔اسی طرح کی بہت ساری توہمات ہمارے ان فلیٹوں میں عام تھیں۔فقیر کی شخصیت کے مختلف پہلووں مجھے بھی اب پْرسرار لگنے لگے۔شاید یہ مختلف لوگوں کی باتوں کا نفسیاتی اثر تھا جو مجھ پر طاری ہورہا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کی دلچسپی اس شخص سے کم ہونے لگ گئی ہے۔یہ حقیقت کھل چکی تھی کہ وہ وہ حقیقتاََ دنیاوی شعور سے عاری ایک حواس باختہ شخص تھا۔جس کا کوئی گھر بار یا خاندان نہیں ہے ۔زندگی گزرنے کے لیے اسے نالے کے کنارے یہ تھرا راس آگیا اور اس نے ادھر ہی رہنا شروع کر دیا۔شروع شروع میں اسے کبھی کبھار کسی نہ کسی گھر سے کھانا مل جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔محلے والے اب اس’’ بے فیض شخص‘‘ کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے لگ گئے تھے۔
یہ دسمبر کی ایک سرد رات کا واقعہ ہے۔ آدھی رات کو گلی میں بلی کے رونے کی دردناک آوازیں آنی شروع ہو گئیں۔میرے دل چاہ کہ کوئی وزنی چیز پوری قوت سے مار کر اس بلی کاکام تمام کر دیا جائے۔لیکن سردی کے مارے بستر سے نکلنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ میری اس خواہش کو کسی پڑوسی نے پورا کیا۔زوردار چیز لڑھکنے کی آواز کے ساتھ بلی بھاگی اور ہماری گلی سے نکل گئی۔میں نے بیگم کی طرف دیکھا تو وہ افسردہ بیٹھی ہوئی تھی۔ حیران ہو کر پوچھا کیا ہوا۔کہنے لگی آج پھر بلی نے چیخ و پکار کی ہے آج پھر محلے میں کوئی غیر معمولی واقعہ ہونے والا ہے۔مجھے بیگم کا تبصرہ سخت ناگوار گزر رہا تھا ۔ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔اگر آپ نے ’’غور و فکر‘‘ میں رات گزارنی ہے تو پلیز لائیٹ بجھا کر دوسرے کمرے میں چلی جائیں اور مجھے سکون سے سونے دیں ۔ صبح میں نے آفس بھی جانا ہے۔ بیگم نے لائٹ بند کر دی اور معلوم نہیں میری کس وقت آنکھ لگ گئی۔
صبح ناشتہ دیتے ہی بیگم نے خبر سنائی کہ گلی کے نکر پرجو پاگل شخص بیٹھا رہتا ہے رات سردی سے ٹھٹر کر مر گیا ہے۔ میں نے کہا نہ تھا کہ کچھ ہونے والا ہے آج رات بلی کے چیخنے کی آواز آ رہی تھی بیگم نے فقیر کی موت پر افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے اپنی دانائی پر داد وصول کرنا چاہی۔مجھے انتقال کی اچانک خبر سن کر رنج ہوا۔کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی ۔باہر مسجد کے امام کھڑے تھے۔کہنے لگے شاہ صاحب۔ اس پاگل شخص کی تدفین کے لیے چندہ جمع کر رہے ہیں ۔آپ اپنا حصہ بھی ڈالیں اور باہر آئیں تاکہ اس کی لاش کے غسل کفن کامل کر بندوبست کیا جا سکے۔میں نے ناشتہ ادھورا چھوڑا اور امام صاحب کے ساتھ نکل گیا۔ لاش کے قریب چند محلے والے اور بھی کھڑے تھے۔امام صاحب نے بتایا کہ صبح جب و ہ نماز پڑھانے مسجد جا رہے تھے تو فقیر کی لاش دیکھ کر یوں لگا جیسا دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے بیٹھے فقیر کی روح پرواز کر گئی اور کمبل ایک سائیڈ پر پڑا ہوا تھا۔ یقیناََ کسی تکلیف کی وجہ سے یہ شخص کمبل سے باہر نکلا اور پھر اس کی موت واقعہ ہو گی۔میں نے مشورہ دیا کہ تدفین سے قبل اگر کسی طرح اس کے خاندان کا پتا لگایا جائے ۔ہو سکتاہے اس شہر میں اس کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی رہتا ہو۔امام صاحب کی رضامندی سے اس کے کمبل اور پھٹے ہوئے بستر کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا گیا۔کچھ لوگوں نے اس پر کراہت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گندے بستر میں سے سوائے گندگی و غلاظت کے کچھ بھی نہیں نکلنا ۔معلوم نہیں کیوں میرا دل کہہ رہا تھا کہ شاید اس غلیظ بستر سے ہمیں اس مخبوط الحواس شخص کا کوئی نہ کوئی سراغ مل جائے۔تجسس نے میری ہمت افزائی کی ۔کمبل کی گندگی نے میرے بھی دماغ میں بہت سارے خیالات پیدا کیے لیکن پھرمیں آگے بڑھا اور اس احتیاط سے کمبل کو اٹھانے لگا کہ میری دو انگلیوں کے علاوہ کوئی تیسری انگلی بھی اس کے ساتھ مس ہو کر ’’ناپاک‘‘ نہ ہوجائے۔مجھے کمبل کے اندر چمکتی ہوئی روشن آنکھوں کی طرح کچھ بلوریاں نظر آئیں جو حرکت کر رہی تھیں۔میں گھبرا گیا۔تھورا سا کمبل مزید سرکھایا تو دیکھا کہ ایک بلی اپنے چھ سات نومولود بچوں کے ساتھ دبکی ہوئی بیٹھی تھی۔بلی نے مجھ دیکھ کر خوفزدہ ہونے کی بجائے نظریں جھکا لیں اور اپنے بچوں پر زبان پھیر کر خوشی کااظہار کرنے لگی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے گرم کمبل ملنے سے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی بچ جانے پر شکریہ ادا کر رہی ہو۔ہم سب ایک دوسرے کی طرف حیرانگی سے دیکھتے ہوئے اس سوچ میں پڑ گئے کہ مخبوط الحواس یہ شخص تھا یا کہ ہم سب ہیں۔