پینشن مراعات میں کٹوتی

 حیرت کدہ …پروفیسر سید محمد ابرار شاہ بخاری
    peerji63@gmail.com  
 میں تقریبا چاردہائیوں سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں اور گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف کامرس راولپنڈی میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہوں ۔ ہر تعلیم یافتہ اور باشعور انسان یہ بات بخوبی سمجھتا ہے کہ موجودہ بین الاقوامی حالات میں معیشت اور تجارت میں کامرس کی تعلیم بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ کاروباری، معاشی اور مالی معاملات کو سمجھنے اور بخوبی سر انجام دینے میں کامرس کی تعلیم کی ضرورت محتاج بیان نہیں۔ دور حاضر میں جبکہ معیشت ملکی ترقی اور استحکام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تو تجارتی، معاشی اور کاروباری ماہرین ہی اس ترقی اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ الحمد للہ کہ میں نے ایک اچھی ملازمت کو خیر باد کہہ کر تعلیم کے پیغمبرانہ اور مقدس پیشے کا انتخاب کیا اور بفضل تعالی میرے ہزاروں شاگر د اندرون اور بیرون ملک تجارت، معیشت اور مالیات کے مختلف شعبوں میں ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
میرے والدین تقسیم کے وقت ہجرت کرکے ہندوستان سے پاکستان آئے اور انہوں نے پاکستان کی خاطر اپنے کاروبار ، ملازمتیں، جائدادیںاور خاندان چھوڑ دیئے انہوں نے آگ اور خون کے دریا سے گزر کر اس سر زمین پر قدم رکھا کیوں کہ انہیں پختہ یقین تھا کہ یہ ملک کلمے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ والدین کی جانی اور مالی قربانیوں کے اثرات میرے دل و دماغ میں یوں سرایت کر گئے کہ پاکستان کی محبت زندگی کا سرمایہ اور عزیز از جان متاع بن گئی لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی پچھترسالہ تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ عدل و انصاف، مساوات، اخوت، رواداری ، امن ، مساوات،بھائی چارے ، قانون کی حکمرانی اور حقوق انسانی کی پاسبانی کی تجربہ گاہ بننے والا یہ ملک یکے بعد دیگرے بحرانوں کا شکار ہوتا گیا اور آج تک گرداب سے باہر نہیں نکل سکا۔ دعا ہے کہ اللہ اپنے کرم اور رحمت سے وطن عزیز کو بقاء ، سلامتی، استحکام، امن اورخوشحالی نصیب کرے۔
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ افرادنہ صرف یہ کہ نسل نو کی ذہنی فکر، اخلاقی اور علمی و تہذیبی آبیاری کرتے ہیںبلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے لئے دیگر خدمات انجام دینے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ بچوں کے لئے پولیو کے قطروں کی مہم ہو یا انسدادڈینگی و کرونا، تدارک منشیات ہو یا دہشت گردی ، شجر کاری کا شعور اور آگہی دینی ہو یا بلدیاتی و قومی انتخابات میں فرائض کی انجام دہی کا فریضہ، زیادہ تر اہل کار محکمہ تعلیم سے ہی لئے جاتے ہیںجو اپنے فرائض بڑی ذمہ داری اورخوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں، لیکن بہت سے معاملات اور مسائل ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ تعلیم جیسے اہم ترین اور بنیادی محکمے کو وہ سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں جو اس کا حق ہے۔ یورپ، امریکہ، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ مراعات یافتہ معزز اور قابل تکریم طبقہ اساتذہ کا ہے کیونکہ وہ استاد کو معمار قوم سمجھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ استاد کو" ــبیمار قوم" سمجھتا ہے ۔ سردست میں دو مسائل کی طرف صاحبان اقتدار اور حکام بااختیار سے ان مسائل کے حل کے لئے کچھ معروضات اور گزارشات ان کی سماعتوں تک پہچانے کی جسارت کررہا ہوں۔ 
گزشتہ کچھ عرصہ سے محکمہ تعلیم میں CTI بھرتی کئے جارہے ہیں جن کی مدت ملازمت محض چھ ماہ ہے ۔ چھ مہینے بعد انہیں 45,000/-  روپے ماہانہ تنخواہ کے حساب سے   270,000/-  روپے سیشن کے اختتام پر دے کر فارغ کردیا جاتا ہے۔ اور ان کے معاہدے کی تجدید نہیں کی جاتی ۔ ان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے یہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ، انتہائی قلیل تنخواہ پر صرف چھ ماہ کے لئے کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جب ایک استاد کو معلوم ہو کہ چھ ماہ بعد اس کے سر پر ملازمت سے فراغت کی تلوار لٹک رہی ہے اور اس کی مدت ملازمت میں توسیع یا تجدید بھی نہ ہوگی تو وہ ا پنی قلیل مدتی عارضی ملازمت اور ذھنی پریشانی کی حالت میں اپنے فرائض دل جمعی ، خوش اسلوبی ، ذمہ داری اور پریقین انداز میں کیسے انجام دے سکے گا۔ اس  لئے ششماہی بھرتی اور قلیل مشاہرے پر کام کرنے والے باصلاحیت ، اہل اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوںکو بے یقینی کے عذاب سے نکالنے کے لئے کوئی صورت گری اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے تاکہ ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچ جائے اور وہ منشیات کا شکار ہونے یا پھر بیرون ملک جانے کی کوششوں کو چھوڑ کر ملک و قوم کو اپنے علم اور صلاحیتوں سے مستفید کرسکیں۔
دوسرا توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ 2025  کے اواخر تک محمکہ تعلیم کے بیشتر افراد اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہوجائیں گے۔ ریٹائر ہونے والے افراد کے ذہن میںجوان بچیوں اور بچوں کی شادیوں ، مکان کی تعمیر اور دیگر مذہبی فرائض کی انجام دہی کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور وہ ریٹائرمنٹ پرملنے والی کیمیوٹیشن ، لیو انکیشمنٹ، جی پی فنڈ کو مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں کہ یہی ان کی کل پونجی ہوتی ہے لیکن اب لیو انکیشمنٹ ابتدائی تنخواہ پر اور گریجوٹی  75% -- 25%    کا فارمولا بنا کر ان کے خواب چکنا چور کردئیے گئے ہیں۔ اور ریٹائرڈ افراد کی معاشی اور مالی مشکلات میں (جن میں وہ پہلے ہی مبتلا ہیں) اضافہ کیا جارہا ہے ۔ بے انتہا مہنگائی ، شدید بے روزگاری اور معاشی بحران میں یہ فارمولا ان کی کمر توڑ دے گا جس سے وہ کبھی سنبھل نہ سکیں گے۔    35-40 سال تک سرکاری ملازمت کرکے اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے ریٹائرڈ افراد کیلئے یہ فارمولا ایک شدید دھچکا ہے اس لئے ریٹائرڈ افراد پر رحم کرتے ہوئے اس فارمولے کو کم از کم 31.12.2025 تک موخر کیا جائے تاکہ ریٹائرڈ افراد آبرومند انہ طریقے سے اپنی ملازمت کے فوائد اور ثمرات سمیٹ سکیں اور انہیں مالی اور معاشی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔امید ہے کہ متعلقہ حکام ان گزارشات پر غور فرماکر اور اس میں عملی اقدامات اٹھا کر ہزاروں ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازمین کی دعائیں حاصل کریں گے۔           

ای پیپر دی نیشن