فیض عالم:قاضی عبدالرئوف معینی
بڑھاپا ایک اٹل حقیقت اور عین قانون فظرت ہے۔اس قانون کے مطابق جو اس جہاں میں آئے گا بوڑھا بھی ہو گا اور اسق قانون سے فرار بھی ممکن نہیں۔بقول شاعر
طاری ہوا بڑھاپا اور کھو گئی زندگانی
بس دیکھتے ہی دیکھتے گزری یہ زندگانی
عمر کا یہ آخری حصہ جسے بڑھاپا کہا جاتا ہے بڑااہم ہے۔اسلامی فلاحی معاشرہ میں بزرگ شہریوں کے حقوق پر زور دیا گیا۔کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رسیدہ افراد کے احترام کا درس دیا۔فرمایا ’’ وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا’’بے شک معمر افراد کی عزت و تکریم میری عظمت و بزرگی ہے‘‘ افسوس کا مقام ہے کہ معمر افراد کا احترام نہیں کیا جاتا ان کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق کے حوالے سے عملی اقدامات نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے اس طبقہ میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔اسلامی تاریخ ایسے بہت سے ایمان افروز واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں عمررسیدہ افراد کے حقوق کو احسن انداز میں ادا کیا گیا۔سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک ضعیف صحابی کی آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی اس لیے انہوں نے مسجد میں آنا ترک کر دیا۔جب آپ نے ان سے مسجد نہ آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ میں بینائی سے محروم ہو گیا ہوں اور میرا کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد تک لے آئے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے ان کے لیے ایک معاون مقرر کر دیا۔ ضعیف افراد کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کرنا بھی آپ کا ایک ایسا احسن فیصلہ تھا جس کو مغرب کی مہذب دنیا آج بھی اپنائے ہوے ہے۔اس کو بڑھاپا پنشن کا نام دیا گیا۔ان ممالک میں عمر رسیدہ افراد کو نہ صرف ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے بلکہ ان کی دیگر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ملک عزیز میں ایسا کچھ نہیں ہے نہ حکومتی سطح پر اور نہ ہی نجی سطح پر۔
بڑھتی عمر کے ساتھ بزرگ شہریوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی مسئلہ ہے۔ دوسرے مسائل اس سے جڑے ہوئے ہیں۔تہذیب و تمدن سے دور ہمارے معاشرہ میں بزرگ شہری خجل خوار ہو رہے ہیں۔بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔اگر ہر ضرورت مند عمر رسید ہ فرد کے لیے مناسب ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا جائے تو اس کی زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔
مقررہ وظیفہ جو پرانے ملازم کوحق خدمت کی عوض ایام پیری میں گھر بیٹھے دیا جاتا ہے پنشن کہلاتا ہے۔ملک عزیز میں یہ سہولت صرف سرکاری ملازمین کو میسر ہے نجی اداروں میں بڑی صفائی سے ملازمیں کو اس حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ایک شخص آغاز جوانی میں کسی ادارے میں اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔تین چار دہائیاں ڈیوٹی دیتا ہے تو وہ اس چیز کا حق دار ہے کہ عمر کے آخری حصہ میں اس کی پنشن مقرر کی جائے تاکہ کسی کی محتاجی کے بغیر زندگی گزار سکے۔یہ سہولت سرکاری ملازموں کے ساتھ ساتھ نجی اداروں کے ملازمین کو بھی ملنی چاہیے۔اس حوالے سے قانون سازی ضروری ہے۔نجی اداروں میں اولڈ ایج بینیفٹ کے نام سے ایک برائے نام وظیفہ دیا جاتا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ایک عرصہ سے اس میں کوئی خاص اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
پنشنرز حضرات کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی پنشن میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہو تا جس شرح سے تنخواہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ امسال تنخواہوں میں تیس فی صد کی شرح سے اضافہ ہوا جبکہ پنشن میں اضافہ سترہ فی صد کے حساب سے ہوا۔نجی اداروں کے ملازمین کی تنخواہ میں اس حساب سے اضافہ نہیں ہوا۔سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ کیا پنشنرز حضرات کمر توڑ مہنگائی کے متاثرین میں سے نہیں اور کیا نجی اداروں کے ملازمیں کسی اور سیارے میں بستے ہیں۔