امریکی ارکان کانگرس کا اوبامہ کو مراسلہ.....افغانستان سے افواج واپس بلوانا ہی مسئلہ کا حل ہے

Mar 19, 2009

سفیر یاؤ جنگ
حکمران ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے پندرہ امریکی ارکان کانگریس نے صدر بارک حسین اوبامہ پر زور دیا ہے کہ وہ 17 ہزار مزید امریکی فوجی افغانستان بھجوانے کے فیصلہ پر نظرثانی کریں اور پاکستان پر ڈرون حملوں کی صورت میں فوجی محاذ آرائی کے بجائے‘ سفارت کاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ارکان کانگریس روان پال اور ٹینس کوسی نے اس سلسلہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کے نام بھجوائے گئے خط کے مندرجات سے انہیں آگاہ کیا اور کہا کہ افغانستان سے بحفاظت نکلنے کی حکمت عملی طے کئے بغیر وہاں فوج کی تعداد بڑھانے سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ اس اقدام کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جبکہ افغانستان میں فوجی کامیابی کی صورت میں پاکستان میں بھی فوجی کارروائی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے جس سے خطے میں خطرناک حد تک عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ان کے بقول اس اقدام سے امریکہ مخالف جذبات مزید بھڑکیں گے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ نئی امریکی انتظامیہ فوجی محاذ آرائی کے بجائے سفارت کاری کا راستہ اختیار کریگی کیونکہ فوجیوں کی تعداد بڑھانا اور ڈرون حملے جاری رکھنا کسی مسئلہ کا حل نہیں۔
امریکہ کی سابق بش انتظامیہ کی جانب سے نائن الیون کے واقعہ کے بعد افغانستان اور عراق میں نیٹو افواج کے ذریعے فوجی کارروائی کا فیصلہ کرکے اس خطہ میں امن و امان کی خرابی اور عدم استحکام کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کے ردعمل میں خود امریکہ اور پوری دنیا کا امن و سکون غارت ہوا اور بالخصوص مسلم امہ میں یہ تاثر پختہ ہوا کہ جنونی بش نے اپنے کروسیڈی عزائم کی بنیاد پر دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں مسلم امہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ افغانستان اور عراق میں اتحادی افواج کے زمینی اور فضائی حملوں‘ کارپٹ بمباری اور کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور اتحادی افواج کی چھائونیاں بنا کر ان دونوں مسلم ممالک میں امریکی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کر دی گئیں اور اس خطہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے فوجی آمر جنرل مشرف کو پتھر کے زمانے کی جانب لوٹانے کی دھمکی دے کر اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا گیا مگر اس سے خطہ میں نہ امن و امان بحال ہو سکا‘ نہ ردعمل میں بڑھنے والی عسکریت پسندی پر قابو پایا جا سکا اور نہ ہی اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعہ امریکی مفادات کا تحفظ کیا جا سکا۔ غیور عراقی اور بہادر افغان باشندوں نے اپنی اپنی دھرتی پر بیرونی فوجوں کے ناپاک قدم پڑنے کے خلاف مزاحمت کا جو سلسلہ شروع کیا تھا‘ وہ ہنوز جاری ہے‘ نہ عراقی وزیراعظم نوری المالکی اس مزاحمت کو روک پائے ہیں‘ نہ کٹھ پتلی افغان صدر حامد کرزئی کابل سے باہر افغان دھرتی پر امریکی احکام کو لاگو کرا پائے ہیں اور نہ ہی فرنٹ لائن اتحادی مشرف DO-MORE والے امریکی احکام کی تعمیل کرتے کرتے اس خطہ میں امریکی اتحادی افواج کی موجودگی کا کوئی جواز نکال پائے تھے‘ الٹا اتحادی افواج کو زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس میں انہیں بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا اور امریکی فوجیوں کی تابوت بند لاشیں ان کے لواحقین کو ملنا شروع ہو ئیں تو اس کے ردعمل میں بش انتظامیہ کو اپنے شہریوں کی جانب سے بھی سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
اس پس منظر میں ہی بش انتظامیہ پر اس کے شہریوں کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا سے بھی عراق اور افغانستان سے اپنی افواج واپس بلوانے کیلئے دبائو بڑھا جبکہ غیور افغان مزاحمت کاروں سے ناکوں چنے چبانے والے نیٹو افواج کے کمانڈروں نے بھی بش انتظامیہ کو یہی مشورہ دیا کہ مزاحمت کاروں سے جنگ جیتنا آسان نہیں ہے‘ اس لئے یہاں فوجی کارروائی ختم کرکے اپنی افواج واپس بلوائی جائیں اور مقامی باشندوں کو اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کا موقع دیا جائے۔
چونکہ کٹھ پتلی کرزئی جو اب خود راندہ درگا بن چکے ہیں‘ کا اقتدار ہی امریکی بیساکھیوں پر نیٹو افواج کے سہارے قائم تھا‘ اس لئے انہوں نے افغانستان سے اتحادی افواج نکالنے کی ہر تجویز کی سخت مخالفت کی اور امریکہ کو کسی دوسرے نائن الیون کا ڈراوا دیتے رہے۔ اسی طرح جنرل (ر) مشرف بھی اپنی مطلق العنانیت قائم رکھنے کی خاطر امریکی احکام کی تعمیل میں مگن رہے جس کے نتیجہ میں امریکہ کے حوصلے اتنے بڑھے کہ اس کی افواج نے پہلے افغانستان کے اندر سے ہمارے قبائلی علاقوں میں میزائل حملے شروع کئے‘ پھر ہماری حکومت کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہونے پر اتحادی افواج نے ہماری سرزمین کے اندر گھس کر زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیئے‘ جو اب بڑھتے بڑھتے امریکی ڈرون حملوں تک پہنچ گئے ہیں۔ پہلے یہ کارروائیاں قبائلی علاقوں تک محدود تھیں پھر ڈرون حملے بنوں جیسے بندوبستی علاقوں تک پھیل گئے اور اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ نے صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں کے بعد صوبہ بلوچستان تک ڈرون حملوں کا دائرہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور کوئٹہ پر ان حملوں کی تیاری کی جارہی ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے القاعدہ کے بیس بڑے رہنمائوں میں سے 9 رہنمائوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اس لئے اب کوئٹہ جا کر چھپنے والے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کیلئے ڈرون حملوں کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔
بدقسمتی سے مشرف آمریت کے بعد سلطانی ٔ جمہور میں بھی ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی والا کردار نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اپنی سرزمین پر ڈرون حملوں کو روکنے کیلئے اپنی بے بسی کا اظہار بھی کیا جاتا رہا اور ان امریکی جاسوس طیاروں کو اپنی دھرتی پر لینڈ اور یہیں سے حملوں کیلئے پرواز کرنے کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے جبکہ فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کا امریکہ ہمیں یہ صلہ دے رہا ہے کہ اب وہ ڈرون حملوں کا سلسلہ بلوچستان تک بڑھا کر ہماری آزادی و خودمختاری کو کھلم کھلا چیلنج کر رہا ہے۔ نیٹو فوجی کمانڈروں اور امریکی حکام کو تو اس کا احساس ہے کہ افغان دھرتی پر ان کا جنگ جیتنا آسان نہیں ہے اور تاریخ کے صفحات بھی اسکے گواہ ہیں کہ غیور افغان باشندوں نے اپنی دھرتی پر کسی غیرملکی کے پائوں جمنے نہیں دیئے اور سکندر اعظم سے دوسری سپر پاور سوویت یونین تک کو افغان دھرتی پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ۔
اب جبکہ اوبامہ انتظامیہ اپنی نئی پاک افغان پالیسی ترتیب دے رہی ہے اور عراق سے امریکی افواج واپس بلوانے کے فیصلہ پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے بجائے اس کے کہ افغانستان سے بھی امریکی افواج واپس بلوا کر اپنے شہریوں کے اطمینان کا اہتمام کیا جاتا‘ امریکی صدر نے عراق سے نکالی جانے والی اپنی 17 ہزار افواج کو افغانستان بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ مسئلہ کا حل نہیں‘ بلکہ اس سے عسکریت پسندی میں مزید اضافہ ہو گا اور اس خطہ میں امن و امان کی صورتحال مزید ابتر ہو گی۔ امریکی کانگریس کے ارکان کے ایک گروپ نے یقیناً اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے افغانستان میں مزید امریکی افواج نہ بھجوانے اور پاکستان میں ڈرون حملے بند کرنے کا امریکی صدر کو مشورہ دیا ہے اس لئے افغان دھرتی پر امریکی اتحادی افواج کے قیام سے اس خطہ میں اور عالمی امن کو جو سنگین خطرہ لاحق ہوا ہے‘ اس کا تدارک امریکی کانگریس کے ارکان کے مشورے پر عمل کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس خطہ کے ہی نہیں‘ خود امریکہ کے بھی مفاد میں ہے‘ بصورت دیگر کسی دوسرے نائن الیون کے خطرے کی تلوار اس کے سر پر لٹکتی رہے گی۔
اتحاد کیلئے مسلم لیگوں کے قائدین بھی کردار ادا کریں
مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پاکستان کا پاور سٹرکچر تبدیل ہو رہا ہے‘ تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کروں گا کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں۔ مشاہد حسین سید نے مزید کہا کہ وہ مجید نظامی صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لیگی دھڑوں میں اتحاد کیلئے کردار ادا کریں۔ دریں اثنا (ق) لیگ کے سیکرٹری اطلاعات طارق عظیم نے کہا ہے کہ عدلیہ کی بحالی کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ پنجاب سے گورنر راج فوری طور پر ختم کیا جائے۔
مسلم لیگوں کے انتشار نے پاکستان اور جمہوریت کو نقصانات سے دوچار کیا‘ بہت سے سیاسی مسائل کا حل مسلم لیگوں کے اتحاد میں مضمر ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) متحد ہو جاتی ہیں تو وطن عزیز میں مستحکم دو جماعتی سسٹم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ جو مضبوط جمہوریت کیلئے ناگزیر ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے قائدین نجی ملاقاتوں اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں آکر اپنے خطابات میں اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی پر مشورے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں مشاہد حسین کی اس خواہش کو عملی جامہ کیسے پہنایا جا سکتا ہے کہ مجید نظامی صاحب مسلم لیگوں کے اتحاد کیلئے کردار ادا کریں؟ مسلم لیگ (ق) کے دور میں عدلیہ پر شب خون مارا گیا‘ اب عدلیہ کی بحالی پر وہ خوش ہے۔ 16 مارچ کو قانون کی حکمرانی کا دن قرار دیا ہے‘جو ایک حقیقت ہے۔ حقیقت کا ادراک اور اعتراف کیا گیا ہے۔ جس کی ہر طبقے نے تحسین کی ہے۔ اسی طرح قائداعظم اور علامہ اقبال کی مسلم لیگ اگر وجود میں آجائے تو یہ قوم کیلئے تحفہ ہو گا۔ اس لئے خود چودھری شجاعت حسین‘ پرویز الٰہی اور میاں محمد نواز شریف‘ محمد شہباز شریف کو اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ماضی کے معاملات اور واقعات کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ چودھری شجاعت حسین تو میاں برادران کو یہ پیغام بھی پہنچا چکے ہیں کہ ماضی کے جھگڑوں پر مٹی پائو اور اب مل جل کر چلیں۔ بال ’’دی میاں‘‘ کی کورٹ میں پڑا ہے‘ پرویز الٰہی ضرور اس اتحاد کے خلاف ہیں‘ وہ اپنا لچ تلنا چاہتے ہیں‘ لیکن ظاہر ہے شجاعت بھائی جان کے بغیر ناممکن ہے جو اتحاد کے خواہاں ہیں۔ اتحاد کو پیر صاحب پگارہ شریف کی آشیرباد بھی حاصل ہے‘ اب سید مشاہد حسین ہی بسم اللہ فرمائیں‘ آخر وہ ق لیگ میں کس مرض کی دوا ہیں؟
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی!
امریکہ نے بھارت کو سمندری نگرانی کرنے والے 8 طیارے فروخت کرنے کی منظوری دیدی‘ جن کی مجموعی قیمت 2 ارب 10 کروڑ ڈالر ہے۔ یہ امریکہ کی طرف سے بھارت کو دی جانے والی اسلحہ کی سب سے بڑی منتقلی ہو گی۔
امریکہ کی بظاہر دوستی اتحاد تعاون کا رشتہ پاکستان سے ہے‘ مگر درحقیقت وہ لبھو رام کا یار ہے۔ اسی کی ترقی و خوشحالی کا آرزومند ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان کی بھارت کے سامنے فوجی قوت کے حوالے سے کوئی حیثیت نہ ہو۔ امریکہ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ جس قدر بھارت کو مزید مسلح کرتا جائے گا‘ اتنا ہی پاکستان جوہری اسلحہ پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتا جائے گا۔ امریکہ ڈبل گیم کھیل رہا ہے‘ ایک طرف تو وہ اپنا مہنگا ترین اور موثر اسلحہ بیچ رہا ہے‘ دوسری جانب وہ ان قوتوں کو مضبوط بنانے پر لگا ہوا ہے جو مسلمان دشمن ہیں۔ پاکستان کے تعاون سے امریکہ اپنی نام نہاد جنگ لڑتا آرہا ہے‘ بلکہ یہاں تک کہ پاکستان نے اپنے سمیت اسے بھی اجازت دیدی ہے کہ وہ پاکستان میں داخل ہو کر سویلین آبادی کو نشانہ بنائے۔ اس کے ساتھ ہی اڈوں کی سہولت اور لاجسٹک سپورٹ بھی پاکستان مسلسل فراہم کرتا آرہا ہے۔
آٹھ ایسے طیارے جو بھارت کے پاس ہوں گے اور پاکستان اس سے محروم ہو گا‘ بھارت کو سمندری حدود میں بالادستی حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔ ہمارے حکمرانوں میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ امریکہ سے کھل کر کہہ سکیں کہ یہ کڑکڑ ہمارے ہاں اور انڈے بھارت میں۔ بہرصورت وقت مسلسل یہ ثابت کر رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کو غیرمستحکم اور بھارت کو پاکستان پر بالادست بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان امریکہ سے امیدیں توڑ کر خود اپنے پائوں پر کھڑا ہو اور ایسا طرز عمل اختیار کرے کہ بھارت ازخود اس کی طرف میلان ظاہر کرے‘ بھارت کو اس قدر فوجی طاقت سے لیس کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اور پاکستان سے مطلب برآری کے ساتھ بھارت کو فوجی ساز و سامان فراہم کرنا چہ معنی دارد؟
پاکستان سفارتی سطح پر یہ سوال اٹھائے کہ خطے کے امن کو مخدوش بنانے کیلئے کیوں بھارت کو فوجی اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے‘ آخر کیوں برصغیر میں طاقت کا عدم توازن پیدا کیا جا رہا ہے؟ ان حالات میں بھی پاک امریکہ دوستی اگر جاری ہے تو یہ یکطرفہ ہے بلکہ دوستی ڈرامہ ہے۔ اگر یہ حرکت بھارت کے ساتھ کی گئی ہوتی تو بھارت نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا۔ مگر ہماری جانب سے بالعموم ایسی شرارتوں پر مودبانہ خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے جو کہ ایک خودمختار و آزاد ایٹمی ریاست کے شایاں نہیں۔
مزیدخبریں