عامرہ احسان (سابق رکن قومی اسمبلی) ......
ہم ایک تیزی سے تباہی کی طرف لپکتی ہوئی تہذیب سے لنڈے کا اخلاقی گراوٹ کا یہ سامان خرید رہے ہیں جسے استعمال کرنے کیلئے انکے ہاں بھی افراد باقی نہیں بچے۔ فطرت سے جنگ کرکے یہ قومیں اب روبہ زوال اورشکست خوردہ ہے۔ فطرت سے جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ عورت سے اسکی نسوانیت چھین کر اسے نیم مرد بنا دیا اسے بے وقعت کردیا۔ وہ اپنا حسن اور کشش کھو بیٹھی۔ اس لڑتی جھگڑتی مساواتی حقوق زدہ مخلوق سے دامن چھڑا کر مرد نے مرد کو شریک حیات بنا لیا۔
فطرت سے ہر بغاوت کو قانون نے بھی روا قرار دے دیا۔ دنیا بھر کی آبادیاں کم کرواتے خود اپنی آبادیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ قوم کو کچھ دینے کیلئے اب نہ وہاں مائیں ہیں (صرف حقوق رسیدہ عورت ہے) نہ بچے۔ گودوں میں صرف بلیاں ہیں یاکتے۔ ایسے میں وہ امت جسکے پاس ان خزاں رسیدہ، منزل نا آشنا اقوام کو دینے کیلئے سبھی کچھ تھا۔ خود اپنی منزل کا نشان گم کر بیٹھی۔ اپنے رہبروں کو گولیوں سے بھوننے، روشنی کا پتہ بتانے والوں کی زندگی کے چراغ گل کرنے کے درپے ہوگئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک خداداد پاکستان ہمہ نوع آندھیوں کی زد میں ہے۔ علماء کی شہادتوں میں کفر نما قوتوں کا پیغام وہی ہے کہ اسلام کی مالا جپنی چھوڑ دو۔
اب ملک میں اخلاقی انارکی کے دروس چلیں گے آرٹس کونسلوں کے جلو میں۔ اگر اسلام چاہئے تو وہ غامدی برانڈ ہوگا۔ ایسا اسلام جس میں سبھی کچھ ہو سوائے اسلامی اقدار و روایات و نظام زندگی کے اگر تم نے یہ اسلام رد کردیا آئو تمہیں ایک اور برانڈ دے رہے ہیں۔ مولانا سعید جلالپوری کو جس جرم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا وہ یہی تھا کہ بڑی محنت سے ایجنسیوں نے امریکہ کا پسندیدہ برانڈ سات پردوں میں چھپا کر تیار کیا تھا جس سے بے شمار علم والے بھی دھوکہ کھانے کو تھے کہ انہوں نے اس چہرے سے نقاب الٹ دیا ایک اسلامی اخبارکے مفصل مضامین کے ذریعے(9-11مارچ) زید حامد کے ہیرو کو زیرو کرنے کی پاداش میں دھمکیوں کے بعد انہیں خون میں نہلا دیا گیا۔ FIR بھی اسی حوالے سے کٹوائی گئی ہے۔ختم نبوت پر چند اور پروانے نچھاور ہوگئے۔ خالص اسلام کو ختم کرنے، امریکی برانڈکو پروان چڑھانے کی اس جنگ نے پاکستان کا بھی کچھ لوٹ لیا۔ حتیٰ کہ اب تو ہمیں کرزئی بھی منہ چڑانے لگا ہے۔
صحافیوں نے ڈاکٹر عافیہ اوربچوں کے حوالے سے جب سوال کیا تو کرزئی نے ہمیں آئینہ دکھا دیا کہ آپ ہی افراد امریکہ کے حوالے کرتے رہے ہیں۔ ملک آج اسی آگ میں جل رہا ہے۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے۔ جماعتیں ملک و قوم اور اسلام کو بچانے، اسکی بقا اور سلامتی و ترویج کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ جماعت خود مطلوب و مقصود و محبوب بن جائے تو یہ بت بن جایا کرتی ہے۔ آج سبھی اپنے اپنے بت پوج رہے ہیں۔ اسلام کو نقصان پہنچنا گوارا ہے۔ اداروں، جماعتوں کا نقصان گوارا نہیں۔ یہ اسلام سے بھی ایک سنگین مذاق ہے۔ کان لگا کر تاریخ کی پکار سنئے صحابہؓ کا انداز تخاطب میرے ماں باپ آپؐ پر قربان یارسول اللہﷺ۔
آج امریکہ کیلئے قربانیاں دیتے ہم حال سے بے حال ہوگئے۔ اسلام کی بقاء کی جنگ لڑنے والوں نے اس پکار پر اپنی جان، مال، اولاد، آبادیاں سبھی کچھ لٹوا دیا اور اب وہ سرخرو ہونے کو ہیں خواہ وہ طالبان کا افغانستان ہو یا ہمارے غیور قبائل۔ ادھر ہم امریکہ کی جنگ لڑتے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں اب جنوبی پنجاب، کا ترانہ پڑھا جارہا ہے۔ اللہ اب اسکی خیر کرے۔ ہم کوئی نیا محاذ نہ کھول بیٹھیں! پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ دہشت گردی کے فریب سے دامن چھڑا کر پاکستان کی بقاء اور تحفظ کیلئے اسلام کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ورنہ صوبہ در صوبہ، شہر در شہر اس امریکی عفریت کے بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ دہشت گردی کی خونخواری کیا کم ہے کہ صوبائی عصبیت اورلسانیت بھی پر پرزے نکالیں۔
رنگِ گل اڑا اڑا بوئے گل لٹی لٹی
بلبلیں قفس میں ہیں بوم نغمہ بار ہے
کیا عجب دیار ہے
تارِ عنبکوت کے جال ہیں بچھے ہوئے
لومڑی ہے گھات میں شیر کا شکار ہے
کیا عجب دیار ہے!
ہم ایک تیزی سے تباہی کی طرف لپکتی ہوئی تہذیب سے لنڈے کا اخلاقی گراوٹ کا یہ سامان خرید رہے ہیں جسے استعمال کرنے کیلئے انکے ہاں بھی افراد باقی نہیں بچے۔ فطرت سے جنگ کرکے یہ قومیں اب روبہ زوال اورشکست خوردہ ہے۔ فطرت سے جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ عورت سے اسکی نسوانیت چھین کر اسے نیم مرد بنا دیا اسے بے وقعت کردیا۔ وہ اپنا حسن اور کشش کھو بیٹھی۔ اس لڑتی جھگڑتی مساواتی حقوق زدہ مخلوق سے دامن چھڑا کر مرد نے مرد کو شریک حیات بنا لیا۔
فطرت سے ہر بغاوت کو قانون نے بھی روا قرار دے دیا۔ دنیا بھر کی آبادیاں کم کرواتے خود اپنی آبادیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ قوم کو کچھ دینے کیلئے اب نہ وہاں مائیں ہیں (صرف حقوق رسیدہ عورت ہے) نہ بچے۔ گودوں میں صرف بلیاں ہیں یاکتے۔ ایسے میں وہ امت جسکے پاس ان خزاں رسیدہ، منزل نا آشنا اقوام کو دینے کیلئے سبھی کچھ تھا۔ خود اپنی منزل کا نشان گم کر بیٹھی۔ اپنے رہبروں کو گولیوں سے بھوننے، روشنی کا پتہ بتانے والوں کی زندگی کے چراغ گل کرنے کے درپے ہوگئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک خداداد پاکستان ہمہ نوع آندھیوں کی زد میں ہے۔ علماء کی شہادتوں میں کفر نما قوتوں کا پیغام وہی ہے کہ اسلام کی مالا جپنی چھوڑ دو۔
اب ملک میں اخلاقی انارکی کے دروس چلیں گے آرٹس کونسلوں کے جلو میں۔ اگر اسلام چاہئے تو وہ غامدی برانڈ ہوگا۔ ایسا اسلام جس میں سبھی کچھ ہو سوائے اسلامی اقدار و روایات و نظام زندگی کے اگر تم نے یہ اسلام رد کردیا آئو تمہیں ایک اور برانڈ دے رہے ہیں۔ مولانا سعید جلالپوری کو جس جرم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا وہ یہی تھا کہ بڑی محنت سے ایجنسیوں نے امریکہ کا پسندیدہ برانڈ سات پردوں میں چھپا کر تیار کیا تھا جس سے بے شمار علم والے بھی دھوکہ کھانے کو تھے کہ انہوں نے اس چہرے سے نقاب الٹ دیا ایک اسلامی اخبارکے مفصل مضامین کے ذریعے(9-11مارچ) زید حامد کے ہیرو کو زیرو کرنے کی پاداش میں دھمکیوں کے بعد انہیں خون میں نہلا دیا گیا۔ FIR بھی اسی حوالے سے کٹوائی گئی ہے۔ختم نبوت پر چند اور پروانے نچھاور ہوگئے۔ خالص اسلام کو ختم کرنے، امریکی برانڈکو پروان چڑھانے کی اس جنگ نے پاکستان کا بھی کچھ لوٹ لیا۔ حتیٰ کہ اب تو ہمیں کرزئی بھی منہ چڑانے لگا ہے۔
صحافیوں نے ڈاکٹر عافیہ اوربچوں کے حوالے سے جب سوال کیا تو کرزئی نے ہمیں آئینہ دکھا دیا کہ آپ ہی افراد امریکہ کے حوالے کرتے رہے ہیں۔ ملک آج اسی آگ میں جل رہا ہے۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے۔ جماعتیں ملک و قوم اور اسلام کو بچانے، اسکی بقا اور سلامتی و ترویج کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ جماعت خود مطلوب و مقصود و محبوب بن جائے تو یہ بت بن جایا کرتی ہے۔ آج سبھی اپنے اپنے بت پوج رہے ہیں۔ اسلام کو نقصان پہنچنا گوارا ہے۔ اداروں، جماعتوں کا نقصان گوارا نہیں۔ یہ اسلام سے بھی ایک سنگین مذاق ہے۔ کان لگا کر تاریخ کی پکار سنئے صحابہؓ کا انداز تخاطب میرے ماں باپ آپؐ پر قربان یارسول اللہﷺ۔
آج امریکہ کیلئے قربانیاں دیتے ہم حال سے بے حال ہوگئے۔ اسلام کی بقاء کی جنگ لڑنے والوں نے اس پکار پر اپنی جان، مال، اولاد، آبادیاں سبھی کچھ لٹوا دیا اور اب وہ سرخرو ہونے کو ہیں خواہ وہ طالبان کا افغانستان ہو یا ہمارے غیور قبائل۔ ادھر ہم امریکہ کی جنگ لڑتے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں اب جنوبی پنجاب، کا ترانہ پڑھا جارہا ہے۔ اللہ اب اسکی خیر کرے۔ ہم کوئی نیا محاذ نہ کھول بیٹھیں! پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ دہشت گردی کے فریب سے دامن چھڑا کر پاکستان کی بقاء اور تحفظ کیلئے اسلام کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ورنہ صوبہ در صوبہ، شہر در شہر اس امریکی عفریت کے بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ دہشت گردی کی خونخواری کیا کم ہے کہ صوبائی عصبیت اورلسانیت بھی پر پرزے نکالیں۔
رنگِ گل اڑا اڑا بوئے گل لٹی لٹی
بلبلیں قفس میں ہیں بوم نغمہ بار ہے
کیا عجب دیار ہے
تارِ عنبکوت کے جال ہیں بچھے ہوئے
لومڑی ہے گھات میں شیر کا شکار ہے
کیا عجب دیار ہے!