سید حیدر حسن میجر (ریٹائرڈ)...........
اللہ سید روح الامین کو خوش رکھے (آمین) انہوں نے (نوائے وقت یکم فروری 2010) میں اپنے مضمون ’حضرت قائداعظم ہمارے حکمران اور قومی زبان اردو‘ میں نہایت درد مندی سے اپنے عظیم کرب کا اظہار کیا ہے۔ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اردو زبان ہمارے لئے بطور ایک قومی زبان کیوں ضروری ہے۔ میں اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ اسے سرکاری زبان بھی ہونا چاہئے۔ 1970 ءمیں مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید سجاد حسین مرحوم و مغفور نے اللہ ان کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین جو ایک مومن اور کھرے پاکستانی تھے نے ایک مضمون لسانی تحریک کے بارے میں انگریزی میں تحریر کیا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے لئے کرنے کا اعزاز اس راقم کو حاصل ہوا۔ وہ مضمون 16 دسمبر 2009ءکو نوائے وقت میں شائع ہو چکا ہے اس مضمون کا آخری پیرا ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ مضمون کا عنوان ہے ’ مشرقی پاکستان میں لسانی تحریک‘۔
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں۔
مصنف بسنت چڑ جی ایک پیشن گوئی کرتا ہے وہ کہتا ہے بنگالی کو ایک ہتھیار کے طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا چکا ہے اور یہ کہ بطور ایک سیاسی ہتھیار اس کی ضرورت پوری ہوگئی‘ وہ حیران کن پشین گوئی کرتا ہے کہ اگر بنگالی مسلمان بنگلہ دیش کو ایک خود مختار مملکت کے طور پر قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان کی سیاسی بقاءکی ضرورتیں ایک دن انہیں مجبور کر دیں گی کہ وہ اردو کو اپنے ملک کی سرکاری زبان کے طور پر اپنا لیں۔
قارئین! بسنت چٹر جی کی پشین گوئی کب پوری ہوتی ہے یا نہیں ہوتی یہ تاثرات اس شخصیت کے ہیں جو کسی بھی صورت میں مسلمانوں کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا لیکن اس کا یہ تجزیہ اس کی اندرونی کیفیت کا غماز ہے اس میں کوئی بناوٹ یا سیاست کارفرما نہیں محسوس ہوتی اور بعید نہیں یہ دوبارہ ہمارے ایک ہونے کا ذریعہ ہو اگر ایک غیر آدمی بنگلہ دیش کے لئے اردو کو اس کی بقاءکا ذریعہ ٹھہراتا ہے تو پھر اس بچے کھچے پاکستان کے لئے تو اردو پھر روح کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر یہاں ہو یہ رہا ہے کہ اردو سے مسلسل سوتیلی اولاد جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ہمیںاپنی قومی زبان اور اردو کی اہمیت کو ازبس سمجھنا چاہئے کہ تمام ترقی پسند قومیں اپنی زبان میں کاروبار زندگی چلا رہی ہیں۔ ہمیں انگریزی کی غلامی سے نکلنا ہو گا۔
اللہ سید روح الامین کو خوش رکھے (آمین) انہوں نے (نوائے وقت یکم فروری 2010) میں اپنے مضمون ’حضرت قائداعظم ہمارے حکمران اور قومی زبان اردو‘ میں نہایت درد مندی سے اپنے عظیم کرب کا اظہار کیا ہے۔ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اردو زبان ہمارے لئے بطور ایک قومی زبان کیوں ضروری ہے۔ میں اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ اسے سرکاری زبان بھی ہونا چاہئے۔ 1970 ءمیں مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید سجاد حسین مرحوم و مغفور نے اللہ ان کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین جو ایک مومن اور کھرے پاکستانی تھے نے ایک مضمون لسانی تحریک کے بارے میں انگریزی میں تحریر کیا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے لئے کرنے کا اعزاز اس راقم کو حاصل ہوا۔ وہ مضمون 16 دسمبر 2009ءکو نوائے وقت میں شائع ہو چکا ہے اس مضمون کا آخری پیرا ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ مضمون کا عنوان ہے ’ مشرقی پاکستان میں لسانی تحریک‘۔
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں۔
مصنف بسنت چڑ جی ایک پیشن گوئی کرتا ہے وہ کہتا ہے بنگالی کو ایک ہتھیار کے طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا چکا ہے اور یہ کہ بطور ایک سیاسی ہتھیار اس کی ضرورت پوری ہوگئی‘ وہ حیران کن پشین گوئی کرتا ہے کہ اگر بنگالی مسلمان بنگلہ دیش کو ایک خود مختار مملکت کے طور پر قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان کی سیاسی بقاءکی ضرورتیں ایک دن انہیں مجبور کر دیں گی کہ وہ اردو کو اپنے ملک کی سرکاری زبان کے طور پر اپنا لیں۔
قارئین! بسنت چٹر جی کی پشین گوئی کب پوری ہوتی ہے یا نہیں ہوتی یہ تاثرات اس شخصیت کے ہیں جو کسی بھی صورت میں مسلمانوں کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا لیکن اس کا یہ تجزیہ اس کی اندرونی کیفیت کا غماز ہے اس میں کوئی بناوٹ یا سیاست کارفرما نہیں محسوس ہوتی اور بعید نہیں یہ دوبارہ ہمارے ایک ہونے کا ذریعہ ہو اگر ایک غیر آدمی بنگلہ دیش کے لئے اردو کو اس کی بقاءکا ذریعہ ٹھہراتا ہے تو پھر اس بچے کھچے پاکستان کے لئے تو اردو پھر روح کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر یہاں ہو یہ رہا ہے کہ اردو سے مسلسل سوتیلی اولاد جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ہمیںاپنی قومی زبان اور اردو کی اہمیت کو ازبس سمجھنا چاہئے کہ تمام ترقی پسند قومیں اپنی زبان میں کاروبار زندگی چلا رہی ہیں۔ ہمیں انگریزی کی غلامی سے نکلنا ہو گا۔