صوبے لاپتہ افراد کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ 5 اپریل کو پیش کریں : سپریم کورٹ

Mar 19, 2010

سفیر یاؤ جنگ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے بازیابی کے لئے تمام صوبوں کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے کر تحقیقات مکمل کر کے جمع رپورٹ 5 اپریل کو عدالت کو فراہم کرنے کا حکم دیا ہے‘ عدالت نے لال مسجد واقعہ کے شہدا اور لاپتہ ہونے والوں کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کر لیا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے عدالتی کمشن کے قیام کی منظوری دے دی ہے‘ جسٹس جاوید اقبال‘ جسٹس ثائر علی اور جسٹس طارق پرویز پر مشتمل تین رکنی بنچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے عدالتی کمشن بنانے کی منظوری دے دی ہے‘ کمشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوں گے جبکہ اس میں ہائیکورٹ کے دو رےٹائر جج شامل ہوں گے کمشن کے قیام کا اعلامیہ جلد جاری کر دیا جائے گا‘ کمشن کو وسیع اختیارات دئیے جائیں گے اور وہ انکوائری کے لئے فوجی افسروں تک کو طلب کر سکے گا‘ انہوں نے بتایا کہ وزارت خارجہ سے بیرونی ممالک میں قید پاکستانیوں کی موصول ہونے والی فہرست کا لاپتہ افراد کی فہرست سے موازنہ نہیں کیا جا سکا‘ اس کے لئے کچھ وقت درکار ہے‘ اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ ہر صوبے کے لاپتہ افراد کے مقدمات اس صوبے کی ہائیکورٹ منتقل کر دئیے جائیں تاہم عدالت نے ان کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ جوڈیشل کمشن بن جانے کی صورت میں مقدمات ہائیکورٹ بھیجنا بلاجواز ہو گا۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ لاپتہ افراد کے مقدمے میں حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا‘ حساس اداروں کے کردار کے حوالے سے مناسب جواب نہیں دیا گیا۔ جسٹس ثائر علی نے کہا کہ کمشن کے قیام سے عدالت کا کام ختم نہیں ہو گا بلکہ کم ہو جائے گا۔ ان افراد کی بازیابی عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری ہے‘ ہم اس ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اگر موجودہ قوانین کمزور ہیں تو حکومت نئے قوانین وضع کرے۔ بلوچستان کے حوالے سے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جس سے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ جو افراد بازیاب ہو چکے ہیں ان کی ملاقات ان کے اہلخانہ سے کرائی جائے۔ ہیومن رائٹس کمشن کی جانب سے عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ ہماری تنظیم نے 2007ءمیں 235 لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی تھی اس میں سے 174 بازیاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کی جائے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تعداد کیا ہے اور وہ کس قانون کے تابع کام کرتی ہیں۔ اب تو ایف سی کے اہلکار بھی لوگوں کو اٹھا رہے ہیں جس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ایکشن سب کے خلاف ہو گا لیکن قانون کے مطابق عدالت قانون شکنی کا جواب قانون شکنی سے نہیں دے گی‘ عافیہ صدیقی کے وکیل حشمت حبیب نے کہا کہ عافیہ صدیقی سے متعلق امریکی عدالت کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا‘ لوگوں کو لاپتہ رکھنے کے لئے امریکہ سے 30 ڈالر فی کس وصول کئے جا رہے ہیں‘ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ حکومت نے عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق سنجیدہ کوششیں کی ہیں اور ایک غریب ملک ہونے کے باوجود مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کی گئیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے ایس پی کامران عادل نے رپورٹ دی کہ مسعود جنجوعہ اور فیصل فراز کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا‘ وزارت دفاع نے اس حوالے سے فوجی افسروں کے بیانات حاصل کئے ہیں۔ میجر جنرل شفقات نے بیان دیا کہ مسعود جنجوعہ کے والد کو اس بارے میں آ گاہ کیا گیا تھا کہ وہ سکیورٹی اداروں کے پاس نہیں۔ وزارت دفاع کی جانب سے راجہ بشیر ایڈووکیٹ نے عدالت کو ب تایا کہ آمنہ مسعود مفروضوں پر بات کر رہی ہیں۔ لال مسجد آپریشن میں لاپتہ ہونے والے نوجوان محمد علی کے والد مزمل شاہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کا بیٹا تین سال سے غائب ہے‘ لال مسجد آپریشن کے ذمہ دار جنرل مشرف ہیں انہیں واپس لا کر پھانسی دی جائے۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کے 8 افراد کے غائب ہونے کی ایف آئی آر درج ہے جس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ لال مسجد میں 8 نہیں بہت سے افراد شہید اور لاپتہ ہوئے۔ عدالت نے آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد کو حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت پر خود عدالت پیش ہوں اور لال مسجد واقعہ کے شہدا اور لاپتہ افراد کی مکمل رپورٹ پیش کریں جس میں ان کے نام بھی ہونے چاہئیں۔ عدالت نے صوبوں کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنا کر انکوائری کرنے اور رپورٹ 5 اپریل کو پیش کرنے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ نے بلوچستان پولیس کے سربراہ کو حکم دیا کہ وہ لاپتہ بلوچ افراد کے مقدمات درج کریں‘ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمہ میں آمنہ مسعود جنجوعہ کی جانب سے پارلیمنٹ کو ہدایات جاری کرنے کی استدعا منظور نہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو عدالت عظمیٰ سے توقعات ہیں لیکن پارلیمنٹ قانون سازی کرنے کی مجاز ہے، ہم اپنی بعض حدود سے تجاوز نہیں کر سکتے، پارلیمنٹ ”سپریم“ ہے۔ کوئی اسے ”اکاﺅنٹیبل“ (جوابدہ) نہیں بنا سکتا۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ ہم (عدالت) اسے حکم نہیں دے سکتی۔ ہم (عدالت) آئین کی پیداوار ہیں جسے پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے مقدمات میں ہمارا بنیادی مقصد اس وقت کسی کو سزا دینا نہیں بلکہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا ہے۔ انہوں نے ڈپٹی اٹارنی جنرل شاہ خاور کو حکم دیا کہ وہ وزارت داخلہ کو منع کریں کہ محض لاپتہ افراد کے لواحقین کو تسلی دینے کی خاطر یہ نہ کہیں کہ وہ ایجنسیوں کے پاس ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لواحقین کی تسلی کی خاطر ایسی بات کر دی جاتی ہے اگر ان کے علم میں نہیں تو صاف بتا دیں، محض ہمدردی کے تحت ایسا نہ کریں۔ عدالت محض وقت گزاری نہیں کر رہی۔ عدالت اپنی طرف سے کوشش کر رہی ہے تاہم جیسا ہم بیان کر چکے ہیں کہ مارچ سے آگے نہیں بڑھیں گے جس کا مقصد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو وقت دینا ہے۔ اس کی رپورٹ آنے کے بعد عدالت فیصلہ صادر کرے گی۔ لاپتہ افراد کے مقدمات کی درجہ بندی کرے گی۔ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو صبر کی تلقین کریں۔ عدالت کی مداخلت کے بعد سے لاپتہ افراد کا سراغ لگایا گیا۔ کچھ پیش رفت ہوئی بھی ہے لیکن مزید تھوڑا صبر کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے سوا اور چارہ بھی کیا ہے۔ اگر ہم بھی جذباتی طرز فکر اپناتے تو ایک بھی لاپتہ فرد سامنے نہ آتا۔ ہماری سوچ اور طرز عمل خالص قانونی ہے۔ جسٹس ثائر علی نے کہا کہ ہم جوڈیشل کمیشن کے قیام کا جائزہ لیں گے۔ ابھی اس کا وقت نہیں آیا، عدالت نے کہا کوئی ایک شخص بھی لاپتہ نہیں رہے گا۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ بیرون ملک قید پاکستانیوں کی تعداد 6 ہزار ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی مجموعی طور پر نگرانی عدالت عظمیٰ ہی کرے گی، یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ یہ بوجھ بانٹنے کیلئے ہے، ہم اپنا بوجھ منتقل نہیں کر رہے۔ ایک موقع پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ عدالت کسی کو اس معاملہ میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دے گی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بعض لوگ جہاد کیلئے گئے اور بعض گرفتاریوں کے خوف سے روپوش ہو گئے جنہیں لاپتہ کہا جا رہا ہے۔ عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی پولیس اسلام آباد کو حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں اور لال مسجد کے شہدا اور لاپتہ افراد کے بارے میں متعلقہ ریکارڈ پیش کریں۔ ڈاکٹر عافیہ کیس میں سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس لاپتہ افراد کے مقدمہ میں نہیں آتا‘ عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ آیا لاپتہ افراد کے کیس میں اس ضمن میں مزید کارروائی ہو سکتی ہے۔ حکومت کی اب تک کی کوششوں کو سراہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوں لیکن اب تک ٹھوس پیشرفت کچھ نہیں ہوئی۔ جسٹس طارق پرویز نے حشمت حبیب ایڈووکیٹ سے سوال کیا ، کیا امریکہ کی کسی عدالت میں اضافی شہادت کی درخواست دی گئی ہے اور ہاں یا نہیں میں جواب دینے کا کہا۔ حشمت حبیب نے کہاکہ کون درخواست دے گا جن کو دینی چاہئے وہ تو کچھ اور کر رہے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ہمارا غریب ملک ہے پھر بھی کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔ حکومت نے اقدامات کئے وکلا کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اب وکلا نے کہا کیا وہ معاملہ اور ہے۔
مزیدخبریں